ایک بڑا سٹور

میرے ایک دوست کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی اسکا نام صائمہ تھا جب ہم سمن آباد میں رہتے تھے اسکی وہاں شادی ہوگئی پھر وہ سمن آباد سے شادی کے بعد لندن چلی گئی اسکا خاوند انجینئر تھا وہ لندن سے پھر کینیڈا شفٹ ہوگئے جب انکے دو تین خوبصورت سے بچے ہوگئے تو پھر صائمہ نے کہا کہ ہم کتنی دیر باہر رہیں گے اور اسکے بعد وہ واپس گھر لاہور آئے  اس نے مجھے بتایا کہ انکل آج کل میں سمن آباد میں ہوں میں نے کہا کہ تم نے یہ علاقہ کیوں نہیں بدلا وہ کہنے لگی کہ انکل ایک تو اس علاقے سے میرے بچپن کی یادیں وابستہ ہیں اور یہاں سٹور بھی بڑا نزدیک ہے جو چیز نہیں ہوتی ہے میں جھٹ سے لے آتی ہوں میں نے کہا کہ سمن آباد میں ایسا کون سا اشیائے ضروریہ کا سٹور ہے جس سے ہرچیز دستیاب ہے وہ کہنے لگی انکل بہت بڑا ہے اور نہایت اعلیٰ درجے کا ہے میں نے کہا کہ میں نے تو نہیں دیکھا کہنے لگی اماں کا گھر میرے گھر کے قریب ہی ہے جس چیز کی ضرورت پڑتی ہے وہاں سے جاکے لے آتی ہوں اس سے اچھا سٹور مجھے کہیں ملا ہی نہیں‘ میں بڑی دیر اس سے باتیں کرتا رہا اور خوش ہوتارہا  آپ جہاں بھی چلے جائیں جہاں بھی انسان آباد ہیں اور جہاں بھی قدرت کے نظارے ہیں وہ نظارے اور فضائیں آپکو اپنے ساتھ شیئرنگ کرتی ہوئی ہی ملیں گی جب میں اٹلی میں تھا وہاں ایک اصول ہے کہ ہر سال ڈرائیونگ لائسنس کی جب تجدید کروائی جاتی ہے تو آپ کو ایک بار پھر ڈاکٹر کے حضور بینائی ٹیسٹ کرانے کیلئے پیش ہونا پڑتا ہے میں بھی ڈاکٹر کے پاس گیا اور اس نے کہا کہ اوپر کی لائن سے پڑھتے ہوئے چھٹی لائن تک آؤ‘آخری لائن بڑی باریک لکھی ہوئی تھی میں نے پانچویں لائن تک تو کھٹا کھٹ پڑھ دیا لیکن جب میں چھٹی پر آیا تو رک گیا اور میں نے ڈاکٹر سے اطالوی زبان میں کہا کہ یہ مجھ سے نہیں پڑھی جاتی تو ڈاکٹر نے کہا کہ ’پاس‘یہ پانچ لائن پڑھنے تک کا حکم ہے یہ چھٹی تو میں تمہیں اپنی طرف سے کہہ رہا تھا اب میں اس چھوٹے سے رشتے کو محبت کے رشتے کو کیا نام دوں لیکن اس نے میرا دل پر باش کردیا تھا اور اس کی معمولی سی محبت کی بات سے میرا دل خوشی سے بھر گیا تھا مجھے یہ بات محسوس کرکے بھی بڑی خوشی ہوتی ہے کہ بہت سے لوگوں میں بہت کچھ جانتے ہوئے اور نہ جانتے ہوئے بھی ہمارے ساتھ شیئر کیا ہے۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)