کسی بھی شخصیت کے خیالات اور ان کا اچھوتے انداز میں اظہار اس وقت زیادہ اہم ہو جاتا ہے جب وہ شخصیت زندگی کا گہرائی سے مشاہدہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو اور ساتھ وہ ایسے اہم عہدوں پر فائز بھی رہی ہو جہاں معاملات کی اہمیت اور اس کو سلجھانے کی قوت بھی کھل کر سامنے آجائے تو یہ محض الفاظ نہیں رہتے بلکہ ایک قیمتی خزانے کی صورت اختیار کرجاتے ہیں اشفاق احمد کی نشری تقاریر کی حیثیت بھی کچھ اس طرح کی ہے ذیل میں اقتباس اس کا ثبوت ہے۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ اب ہمارا کرکٹ کا موسم ہے جو کہ ہمیشہ ہی رہتا ہے‘ اس پر آپ بھی غور کریں۔ میں تو اتنا اچھا watcher نہیں ہوں‘ لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ ہر بیٹسمین اپنے مضبوط ہاتھوں‘ مضبوط کندھوں اور پر استقلال جمائے ہوئے قدموں‘اپنے سارے وجود اور اپنی ساری طاقت کے ساتھ ہٹ نہیں لگاتا‘ بلکہ اس کے سرکی ایک چھوٹی سی جنبش ہوتی ہے‘ جو نظر بھی نہیں آتی نہ ہرکوئی اس کونوٹ کر سکتا ہے‘ اس جنبش کے نہ آنے تک نہ چوکا لگتا ہے نہ چھکا لگتا ہے جب وہ بیلنس میں آتی ہے‘ تب شارٹ لگتی ہے۔ سرکس کی خاتون جب تار پر چلتی ہے وہ بیلنس سے یہ سب کچھ کرتی ہے‘ میں ابھی جس راستے سے آیا ہوں‘ مجھے آدھ گھنٹہ کھڑا رہنا پڑا کیونکہ ہماری بتی تو سبز تھی‘لیکن دوسری طرف سے آنیوالے لوگ ہمیں گزرنے نہیں دیتے تھے اور راستہ نہ دے کر کہہ رہے تھے کہ کرلو جو کرنا ہے‘ہم تو اس ڈسپلن کو نہیں مانتے۔
یہ سوچ خطرناک ہے‘ بظاہر کچھ باتیں چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں‘ لیکن وہ نہایت اہم اور بڑی ہوتی ہیں۔ میں نے تھوڑے دن ہوئے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا کہ آپ کو سب سے زیادہ کرایہ کہاں سے ملتا ہے‘اس نے کہا سر مجھے یہ تو یاد نہیں کہ کسی نے خوش ہوکر زیادہ کرایہ دیا ہو‘ البتہ یہ مجھے یاد ہے کہ میری زندگی میں کم سے کم کرایہ مجھے کب ملا اور کتنا ملا۔ میں نے کہا کتنا‘ کہنے لگا آٹھ آنے۔ میں نے کہا کہ وہ کیسے؟ کہنے لگا جی بارش ہو رہی تھی یا ہوچکی تھی‘ میں لاہور میں بسنت روڈ پر کھڑا تھا‘ بارش سے جگہ جگہ پانی کے چھوٹے چھوٹے جوہڑ سے بنے ہوئے تھے تو ایک بڑی پیاری سی خاتون وہ اس پٹڑی سے دوسری پٹڑی پر جانا چاہتی تھی لیکن پانی کے باعث جا نہیں سکتی تھی۔ میری گاڑی درمیان میں کھڑی تھی‘ اس خاتون نے گاڑی کا ایک دروازہ کھولا اور دوسرے سے نکل کر اپنی مطلوبہ پٹڑی پر چلی گئی اور مجھے اٹھنی دے دی۔ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں‘ مسکرانا سیکھنا چاہئے اور اپنی زندگی کو اتنا ’چیڑا‘(سخت) نہ بنالیں کہ ہر وقت دانت ہی بھینچتے رہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ڈسپلن کے راز کو پالیں گے اور خود کو ڈھیلا چھوڑیں گے اور Relax رکھیں گے۔
زندگی مصروف ہوگئی ہے‘واقعی اس کے تقاضے بڑے ہوگئے ہیں‘لیکن جب انسان‘ انسان کے ساتھ رشتے میں داخل ہوتا ہے تو سب سے بڑا تحفہ اس کا وقت ہی ہوتا ہے جب آپ کسی کو وقت دیتے ہیں یا کوئی آپ کو وقت دیتا ہے اپنا لمحہ عطا کرتا ہے تو آپ حال میں ہوتے ہیں اس کا تعلق ماضی یا مستقبل سے نہیں ہوتا لیکن کبھی کبھی یہ بات میں تفریح کے طور پر کرتا ہوں تاکہ اپنے استاد کو بہت داد دے سکوں اور ان کا مان بڑھانے کے لئے اور ان کے سامنے عاجزی سے کھڑے ہونے کے لئے کہتا ہوں جس زمانے میں ہمارے استاد پطرس بخاری ہمیں گورنمنٹ کالج چھوڑ کر یواین او میں چلے گئے تھے اور وہ نیویارک ہی رہتے تھے جس علاقے یا فلیٹ میں وہ تھے وہاں استاد مکرم بتاتے ہیں کہ رات کے دوبجے مجھے فون آیا اور بڑے غصے کی آواز میں ایک خاتون بول رہی تھیں وہ کہہ رہی تھیں کہ آپ کا کتا مسلسل آدھ گھنٹے سے بھونک رہا ہے اس نے ہماری زندگی عذاب میں ڈال دی ہے‘ میرے بچے اور میرا شوہر بے چین ہوکر چار پائی پر بیٹھ گئے ہیں اور اس کی آواز بند نہیں ہوتی‘اس پر بخاری صاحب نے کہا کہ میں بہت شرمندہ ہوں اور آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ میرا کتا اس طرح سے Behave کررہا ہے لیکن میں کیا کروں میں مجبور ہوں اس پر اس خاتون نے غصے میں آکر فون بند کردیا اگلے ہی روز بخاری صاحب نے رات ہی کے دوبجے ٹیلیفون کرکے اس خاتون کو جگایا اور کہا کہ محترمہ!میرے پاس کوئی کتا نہیں ہے‘ مجھے کتوں سے شدید نفرت ہے کل رات جو کتا بھونکا تھا وہ میرا نہیں تھا اب دیکھئے کہ انہوں نے کس خوبصورتی سے حال کو مستقبل سے جوڑا! یا میں یہ کہوں گا کہ ماضی کو مستقبل کیساتھ جوڑا! یہ بخاری صاحب کا ہی خاصا تھا۔