میٹھے سے پرہیز

ریڈیو پروگرام میں بعض اوقات عجیب صورتحال پیش آتی ہے جیسے رضا علی عابدی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ شاہین کلب کی چٹ پٹی باتوں میں سدھوبھائی کا حلو ے کاشوق بہت رنگ بھرتا تھا۔ ان کے مکالموں میں حلوے کا ذکر ضرور آتاتھا‘ہمارے ساتھی علی احمد خان جب بی بی سی لندن میں ملازم ہو کر آئے اور ان کے بچے بھی لندن آئے تو بچوں نے اپنے ابا سے پوچھا کہ کیا ہم سدھو بھائی سے مل سکتے ہیں؟ علی احمد خان نے کہا کہ یہ بھی کوئی مشکل کام ہے؟ انہیں کسی روز کھانے پر اپنے گھر بلا لیتے ہیں‘ سدھوبھائی کو دعوت دی گئی‘ان کیلئے مزے مزے کی چیزوں کے علاوہ بہت سا حلوہ پکایا گیا اور سدھو بھائی کے سامنے سجادیاگیا۔ تب یہ بھید کھلا کہ وہ ذیابیطس کے مریض ہیں اور حلوہ یا کوئی بھی مٹھائی نہیں کھا سکتے‘ بچوں نے حیران ہو کر پوچھا”توسدھو بھائی‘پروگرام میں وہ سب کہنے کی باتیں تھیں؟

کچھ جھینپ کر اور کچھ شرما کر بولے ”ہاں“ایک بار بی بی سی کے حکام بالا نے کہا کہ وہ اتنے مقبول ہیں کیوں نہ انہیں ہندوستان پاکستان کے دورے پر بھیجا جائے یہ سن کر میں مچل گیا اور کہا کہ وہ بہت سیدھے ہیں۔ اس لئے ان کا نام سدھو بھائی ہے۔ لوگ ان سے لطیفوں اور قہقہوں کی توقع کریں گے‘چنانچہ ان کیساتھ پروگرام کے نہ صرف سارے کردار بلکہ سارے سکرپٹ بھی بھیجنے پڑیں گے‘یہ بات کہتے ہوئے میرا دل تو بہت دکھا لیکن اگر وہ چلے جاتے تو خدا جانے ان کا دل کتنا دکھتا۔ ان کا کمال مکالموں کی ادائیگی میں تھا۔ ان کی زبان میں اک ذرا سی لکنت تھی جسے وہ اس خوبی سے چھپاتے تھے کہ ان کی باتوں میں ایک عجیب سا لطافت کا رنگ بھر جاتا تھا اسی بنا پر لاکھوں سننے والوں کے چہیتے تھے‘ ایک روز یہ ہوا کہ ان پر  فالج کا حملہ ہوا۔ انہیں ہسپتال پہنچایا گیا جہاں انہیں فالج کے تمام مریضوں کی طرح لٹایا گیا

اور وہ پروگرام سے غیر حاضر ہو گئے ہم نے سننے والوں کو بتایا کہ سدھو بھائی پر فالج کا حملہ ہوا ہے اور وہ ہسپتال میں داخل کر دئیے گئے ہیں ہم نے یہ کیا کہ ان خطوں کے تھیلے بھر بھر کر ہسپتال پہنچانے شروع کر دئیے‘  بستر پر لیٹے لیٹے دن بھر وہ خط پڑھا کرتے۔ دعاؤں کا یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا‘ ادھر ڈاکٹروں نے محسوس کیا کہ ان کی حالت سنبھل رہی ہے‘ وہ دو تین مہینوں کے اندر صحت یاب ہو کر کام پر واپس آ گئے۔ ڈاکٹر حیران رہ گئے کہ اتنی تیزی سے صحت یابی کیسے ہو گئی۔ شاہ صاحب ایک سال بعد طبی معائنے کیلئے ہسپتال گئے اور واپس آکر بتایا کہ جو مریض ایک سال پہلے داخل تھے وہ اب تک داخل ہیں۔