ہر پاپولسٹ لیڈر کو خواہ وہ اقتدار میں ہو یا باہرکبھی نہ کبھی ایک نئے بیانئے کی ضرورت پڑ جاتی ہے عوام کی بے چینی اور اضطراب کی وجہ سے حقائق بدلتے رہتے ہیں تبدیل شدہ حالات میں سیاسی لیڈر بھی اپنی پالیسیوں میں ردو بدل کرتے ہیں آجکل کے لبرل سیاستدان خواہ وہ امریکہ میں ہو ں یا پاکستان میں اپنا بیانیہ بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کرتے وہ اسے منظر عام پر لانے کی بجائے خاموشی سے آگے بڑھاتے ہیں وہ اگر اقتدار میں ہوں تو پالیسیوں کے ذریعے اپنا مشن مکمل کرتے ہیں اور اگر اپوزیشن میں ہوں تو حکومت پر تنقید اور احتجاج کرتے ہیں۔ انکے برعکس پاپولسٹ لیڈروں کو ہمیشہ ایک بلند آہنگ بیانئے کی ضرورت رہتی ہے اسکے بغیر انکی سیاست چل نہیں سکتی۔ ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں ہوں یا باہر دنیا بھر کے پاپولسٹ لیڈروں کے رہنما مانے جاتے ہیں۔ انکے دور اقتدار میں جو پاپولسٹ لیڈر واشنگٹن آیا اسکی خوب آؤ بھگت کی گئی آج بھی سابقہ صدر کے تمام پاپولسٹ لیڈروں سے رابطوں کی خبریں امریکی اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں ولادیمیر پیوٹن‘ برازیل کے صدر Jair Bolsonaro‘ ہنگری کے صدر وکٹر اوربان ’ مصر کے عبدالفتح السیسی‘ نریندر مودی اور عمران خان سابقہ صدر ٹرمپ کے پسندیدہ حکمران تھے۔
Jair Bolsonaroاپنی مقبولیت میں کمی کی وجہ سے اکتوبر میں ہونیوالا صدارتی انتخاب ہارتے ہوئے نظر آ رہے ہیں چند ماہ پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے انکی مدد کیلئے ماہرین کی ایک ٹیم برازیل بھیجی تھی تا کہ وہ انہیں معاشی مشکلات سے نکلنے کی تجاویز دے سکے ڈونلڈ ٹرمپ اگر آج صدر امریکہ ہوتے تو روس کے صدر پیوٹن اتنی مشکلات میں نہ ہوتے امریکہ پاکستان تعلقات میں صدر ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس سے جانے کے بعد جو تناؤ آیا ہے وہ انکے دور صدارت میں نہ تھا عمران خان کی وزارت عظمیٰ سے دستبرداری میں بائیڈن انتظامیہ کا کتنا ہاتھ ہے اسکی تحقیقات اسلام آباد میں ہو رہی ہیں مگر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں اس تلخی کا امکان نہ تھا یہ بات کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا بھر کے پاپولسٹ حکمرانوں میں ایک بھائی چارہ ہوتا ہے اور یہ ایکدوسرے کے تجربات سے مستفید ہوتے رہتے ہیں انکا طرز حکمرانی ایک ہی قسم کا ہوتا ہے سب پاپولسٹ لیڈر اشرافیہ کو سیاسی‘ معاشی‘ کلچرل‘ حکومتی اور میڈیاشخصیتوں کا ایسا گروہ سمجھتے ہیں جو بڑی کارپوریشنوں‘ تارکین وطن اور بیرونی ممالک کے مفادات کو اپنے عوام کے مفادات پر ترجیح دیتا ہے یہ پرانا پاپولسٹ بیانیہ اب اپنی چمک دمک کھو رہا ہے اسلئے اب تمام پاپولسٹ لیڈروں کو ایک نئے بیانئے کی ضرورت ہے ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دور صدارت میں ریاستی اداروں کے خلاف بولتے رہے امریکی روایات اور کلچر کی بحالی انکے مرغوب نعرے تھے ان سے انہوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔
فارن پالیسی کو انہوں نے اس حد تک آزاد اور خود مختار کردیا کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی ناراضگی کے باوجود انہوں نے صدر پیوٹن اور شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان سے خوب تعلقات بڑھائے اب ریاستی اداروں کے خلاف انکا بیانیہ کام نہیں کر رہا انہیں معلوم ہے کہ اس غبارے سے ہوا نکل چکی ہے اسلئے وہ ایک نیا بیانیہ تراشنے میں لگے ہوئے ہیں اس کیلئے انہوں نے ایک تین لفظی نعرہ تخلیق کیا ہے جسے وہ Stop the steal یعنی چوری بند کرو کہتے ہیں اسکا مطلب یہ ہے کہ 2020کا الیکشن ان سے چرایا گیا تھا اسلئے وہ اب ایسا نہیں ہونے دیں گے ملک بھر میں انکے حمایتی مقامی کلچرل ایشوز کا پرچار کرنے کے علاوہ گذشتہ الیکشن کی چوری کی دہائی بھی دیتے رہتے ہیں یہ نیا نعرہ ڈونلڈ ٹرمپ کے فین کلب میں تو خاصا مقبول ہے مگر غیر جانبدار ووٹروں نے اسے مسترد کر دیا ہے ٹرمپ کے فین کلب سے باہر اسے پذیرائی نہیں ملی اسلئے ریپبلیکن پارٹی میں اب ایسے لیڈر سامنے آرہے ہیں جوعوام کی توجہ کا مرکز بنتے جا رہے ہیں اسوقت فلوریڈا کے ریپبلیکن گورنر Ron Desantis تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں اور انہیں ایک بڑا حلقہ 2024 کے الیکشن میں ٹرمپ سے بہتر امیدوار سمجھ رہا ہے۔ پاکستان میں عمران خان کو بھی آجکل ایک نئے بیانئے کی تلاش ہے۔ ذولفقار علی بھٹو بھی امریکہ مخالف بیانئے کو ایک حد تک ہی لیجا سکے تھے یہی بیانیہ آجکل پھر کام دکھا رہا ہے۔ آجکا کنزیومر معاشرہ اپنی معاشی مشکلات کو بخوبی سمجھتا ہے اسے آئی ایم ایف اور فیٹف پر امریکہ کے تسلط کا بھی اچھی طرح پتہ ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ پاکستان‘ امریکہ اور یورپی یونین کو ہر سال کئی سو ملین ڈالر کا مال برآمد کرتا ہے اسلئے اب یہ دیکھنا ہو گا کہ خان صاحب کا نیابیانیہ کام کرتا ہے یا نہیں۔