صرف تنقید کافی نہیں 

ہمارے گھر میں ایک راستہ جو چھوٹے دروازے سے ڈرائنگ روم میں کھلتا ہے اور پھر اس سے ہم اپنے گھر کے صحن میں داخل ہوتے ہیں‘بارشوں کی وجہ سے وہ چھوٹا دروازہ کھول دیا گیا‘تاکہ آنے جانے میں آسانی رہے آسانی تو ہوئی‘لیکن اس میں ایک پیچیدگی پیدا ہوگئی وہ یہ کہ باہر سے جو جوتے آتے تھے‘ وہ کیچڑے سے لتھڑے ہوئے ہوتے تھے اور باوجود کوشش کے اور انہیں صاف کرنے کے‘کیچڑ تو اندر آہی جاتا تھااور اس سے سارا قالین خراب ہوجاتا تھا‘میں چونکہ اب تیزی سے بوڑھا ہورہا ہوں اور بوڑھے آدمی میں کنٹرول کی صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے تو میں چیختا چلاتا تھا اور ہر آنیوالے سے کہتا کہ جوتا اتار کر آؤ اور اسے پہننے کے بجائے ہاتھ میں پکڑ کر آؤ اس سے میرے پوتے اور پوتیا ں بہت حیران ہوتے تھے کہ اس جوتے کا فائدہ کیا جو گھر کے دروازے پر پہنچ کر اتارا جائے اور ہاتھ میں پکڑ کر گھر میں داخل ہوا جائے وہ بیچارے کوئی جواز تو پیش نہیں کرتے تھے لیکن جوتے اتارتے بھی نہیں تھے جس سے میری طبیعت میں تلخی اور سختی بڑھتی گئی اور میں سوچتا تھا کہ یہ مسئلہ صرف اسی طرح سے ہی حل ہوسکتا۔
جس طرح میں سوچتا ہوں میری بہو نے کوئی اعتراض تو مجھ پر نہیں کیا اور نہ ہی اس نے مجھے کوئی جواب دیا وہ شام کو بازار گئی اور اس نے دو میٹ خریدے ایک تاروں کا بنا ہوا اور دوسرا موٹا بالوں والا‘اب جب تاروں کے میٹ سے پاؤں رگڑے جاتے تو وہ ’رندے‘ کی طرح صاف کردیتا اور پھر موٹے بالوں کا موٹا دبیز میٹ مزید صفائی کردیتا تھا یہ بعد میں رکھا گیا تھا جب میں نے یہ عمل دیکھا اور میں اس پر غور کرتا رہا‘ تو مجھے کافی شرمندگی ہوئی کہ میں جو اپنی دانش کے زور پر اپنے علم اور عمر کے تجربے پر بات کہہ رہا تھا‘ وہ اتنی ٹھیک نہیں تھی اور اس لڑکی (بہو) نے اپنا آپ اپلائی کرکے اس مسئلے کا حل نکال دیا اور ہمارے درمیان کوئی جھگڑا بھی نہیں ہوا میری ایک نواسی ہے‘اس نے ڈرائیونگ لائسنس کیلئے اپلائی کیا وہ ایک سکول سے دو تین ماہ ڈرائیونگ کی تعلیم بھی لیتی رہی  لائسنس کیلئے ٹریفک پولیس والوں نے  اسکا ٹیسٹ لیا‘ لیکن وہ بیچاری فیل ہوگئی وہ بڑی پریشان ہوئی اور مجھ سے آکر لڑائی کی کہ نانا یہ کیسی گورنمنٹ ہے‘ لائسنس نہیں دیتی وہ خود میں خرابی تسلیم نہیں کرتی تھی‘ بلکہ اسے سسٹم کی خرابی قرار دیتی تھی۔
 ایک ماہ بعد اس نے دوبارہ لائسنس کیلئے اپلائی کیا لیکن وہ ٹیسٹ میں پاس نہ ہوئی اور ٹریفک والوں نے کہا کہ بی بی آپ کو ابھی لائسنس نہیں مل سکتا‘ تو وہ رونے لگی‘شدت سے اور کہنے لگی تم بے ایمان آدمی ہو اور تمہارا ہمارے خاندان کیساتھ  کوئی بیر چلا آرہا ہے‘اسلئے ٹریفک والو تم مجھے لائسنس نہیں دیتے وہ بڑے حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم تو آپکے خاندان کو نہیں جانتے وہ کہنے لگی‘ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے اور اس میں ظلم پر احتجاج کروں گی اخبار میں بھی لکھوں گی کہ آپ لوگوں نے مجھے لائسنس دینے سے انکار کیا‘ایسا میری امی کیساتھ اور ایسا ہی سلوک میری نانی کیساتھ بھی کیا‘جو پرانی گریجویٹ تھیں اور اس طرح ہماری  تین ’پیڑھیوں‘کیساتھ ظلم ہوتا چلا آرہا ہے جس سے آپکا ہمارے ساتھ بیرواضح ہوتا ہے۔ وہ ابھی تک اپنے ذہن میں یہ بات لیے بیٹھی ہے کہ چونکہ ٹریفک پولیس والوں کی میرے خاندان کیساتھ ناچاقی ہے اور وہ اس کو برا سمجھتے ہیں اسلئے ہمیں لائسنس نہیں دیتے اپنی کوتاہی دور کرنے کے بجائے آدمی ہمیشہ دوسرے میں خرابی دیکھتا ہے بندے کی یہ خامی ہے میں اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں اور ہمیشہ دوسرے کی خامی بیان کروں گا۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)