ٹوٹی ہوئی دنیا

پہلے وقتوں میں حکومت سنسر لگایا کرتی تھی مگر آج لوگ خود قومی معاملات پر بات چیت کرنے سے کترا رہے ہیں آجکل کے حالات کے تناظر میں اپنی رائے کا اظہار کرنا مصیبت کو دعوت دینے والی بات ہے سماجی خاموشی کا یہ ماحول اب ایک حقیقت بن چکا ہے اور کہیں جاتے ہوے نظر نہیں آ رہا اسکی ایک بڑی وجہ سیاسی رہنماؤں کا ایکدوسرے پر الزام تراشی اور عدم برداشت کا رویہ ہے اب تو صاحبان اختیار بھی کہہ رہے ہیں کہ اس ملک کو نارمل ہو جانا چاہئے ظاہر ہے کہ چالیس سال تک دو عالمی طاقتوں کے نرغے میں رہنے کے بعد اب نارمل ہونے میں کچھ وقت تو لگے گا مگر خوف اور خاموشی کے عالم میں تو گھٹن اور اضطراب مزید بڑھ جائیگا ایک نارمل زندگی گزارنے کیلئے ضروری ہے کہ اپنی رائے بیان کی جائے اور دوسروں کی سنی جائے سوال پوچھے جائیں اور جواب دیئے جائیں کسی کی رائے کتنی ہی غیر مقبول کیوں نہ ہو اسے اسکے اظہار سے روکا نہ جائے آزادی اظہار کا مقصد سچ کی تلاش ہونا چاہئے نہ کہ مخاطب کو نیچا دکھانالوگ اگر کھل کر بات کر سکتے ہیں تومعاشرہ انکے خیالات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے خیالات کا بلا خوف تردید اظہار ایک طرف جمہوری عمل کو توانائی فراہم کرتا ہے تو دوسری طرف وہ اصلاح احوال کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔
مگر یہ سب کچھ تو سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے اور اتنے بے لگام طریقے سے ہو رہا ہے کہ اب تو خلقت شہر کو ان شعبدہ بازوں کے شر سے بچانے کیلئے چھاپے مارے جا رہے ہیں لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر تحویل میں لئے جا رہے ہیں گرفتاریاں ہو رہی ہیں اس طوفان بد تمیزی میں سماجی خاموشی کی بات کہاں سے آگئی پاکستان میں ایسا کوئی سروے تو نہیں ہوا جسکی مدد سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ لوگ نجی محفلوں میں سیاسی موضوعات پر بات کرنے سے کتراتے ہیں البتہ کچھ خبریں ایسی ضرور آئی ہیں کہ سیاسی تنازعات گروہی تصادم کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔کالم نگار بھی لکھ رہے ہیں کہ گھر گھر میں لوگ بٹے ہوئے ہیں سیاسی اختلافات کی وجہ سے پرانی دوستیاں اور رشتے داریاں ٹوٹ رہی ہیں اب اس خلفشار کے نتیجے میں لوگوں نے قومی اور سماجی مسائل پر بات چیت ہی بند کر دی ہے کیا اسے سماجی خاموشی کہا جا سکتا ہے امریکہ میں Siena College کے ایک سروے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ لوگوں نے آزادی سے بات چیت کرنے کی روش چھوڑ دی ہے کیونکہ بعض لوگ نہایت روکھے اور درشت لہجے میں اختلاف رائے کرتے ہیں اس سروے کے مطابق 84 فیصد لوگوں نے کہا ہے کہ یہ ایک نہایت سنگین مسئلہ ہے کہ لوگوں نے کھل کر اظہار خیال کرنا چھوڑ دیا ہے۔
 سروے کرنے والوں نے اس صورتحال کو Crisis of confidence یعنی اعتماد کا بحران کہا ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو اعتماد نہیں رہا کہ انکی بات سنی جائیگی اور اسکا کوئی معقول جواب دیا جائیگااب پوچھا جا رہا ہے کہ کیا گھٹن کے اس ماحول میں جمہوریت پنپ سکتی ہے جب لوگ خود ہی گھبرا کر آزادی اظہار سے دستبردار ہو رہے ہیں تو اس توانا سیاسی مکالمے کو کہاں تلاش کیا جائے جسے کل تک بڑے فخر سے جمہوریت کی اساس کہا جا تاتھا یہ مکالمہ کیونکہ سوشل میڈیا کے علاوہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی ہو رہا ہے اسلئے اسے عنقا نہیں کہا جا سکتا مگر کیا اسے افراد کے درمیان ہونیوالی گفتگو کا متبادل کہا جا سکتا ہے جب لوگ زباں بندی کو ایک بہتر سماجی رویہ سمجھنے لگیں اور اختلاف رائے کرنے والوں کو مخالف دھڑے کا بندہ سمجھا جانے لگے تو پھر سچ تک پہنچنے کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں ہر ایک کا اپنا اپنا سچ ہوتا ہے اور کوئی بھی اپنے سچ کا ذمہ دار نہیں ہوتاہر ایک کااپنااپناسچ ایک مخصوص گروپ کے اندرمن تورا ملا بگویم تو مرا حاجی بگو کے ماحول میں حرف آخر بن جاتا ہے جو خیالات چیلنج نہیں ہوتے وہ دم توڑ دیتے ہیں یوں معاشرہ ان سے مستفید نہیں ہو سکتا۔ایک امریکی دانشور Monica Guzman نے I Never Thought Of It That Way کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے جسکا مرکزی خیال یہ ہے کہ ایک خطرناک حد تک منقسم دنیا میں بلا خوف و خطر کیسے تجسس بھری گفتگو کی جا سکتی ہے۔
 مونیکا گئز مین نے لکھا ہے کہ ایسی دنیا ٹوٹی ہوئی ہوتی ہے جس میں اظہار رائے کے نتیجے میں تعلق ٹوٹ کر پاش پاش ہو جائے مصنفہ نے پوچھا ہے کہ ایسی دنیا کو کیسے صحیح و سالم کہا جا سکتا ہے جسمیں لوگ گفتگو کرتے وقت ایکدوسرے کو نیچا دکھاتے ہوں‘ شرمندہ کرتے ہوں اور دھمکیاں دیتے ہوں مونیکا گزمین نے دو سال میں بیسیوں لوگوں کو انٹرویو کرنے کے بعد 288صفحات پر مشتمل جو کتاب لکھی ہے اسکا مقصد اس نے یہ بتایا ہے کہ اس ٹوٹی ہوئی دنیا کو کیسے جوڑا جائے اس معاشرتی اکھاڑ پچھاڑ سے نجات حاصل کرنے کے جو حل اسنے لکھے ہیں وہ سب تو یہاں تنگی داماں کی وجہ سے نہیں لکھے جا سکتے مگر کم از کم وہ باتیں لکھی جا سکتی ہیں جو دل کو لگتی ہیں اور جنہیں پتے کی بات کہا جا سکتا ہے مونیکا گزمین کہتی ہیں کہ اگر ہم تیقن کی بجائے تجسس سے بات کریں تو تلخیاں کم ہو سکتی ہیں اسکی رائے میں تجسس میں ایک عاجزی اور دھیما پن ہوتا ہے جو کسی کو برا نہیں لگتا اور دوسری بات یہ کہ لوگوں کو کسی گروپ کا ممبر سمجھنے کی بجائے ایک ایسا فرد سمجھا جائے جسکی انفرادیت ہوتی ہے اور جسکا بیک گراؤنڈ اسے دوسرے لوگوں سے مختلف کر دیتا ہے اور اس بات پر اصرار نہیں کرنا چاہئے کہ لوگ آپکی عینک سے دنیا کو دیکھیں آخری بات یہ کہ موج کو بہر صورت دریا میں رہنا چاہئے کیونکہ بیرون دریا کچھ بھی نہیں ہے۔