یہ جو آپ کا زاویہ ہے ناں یہ عجیب و غریب رنگ دکھاتا ہے اور عجیب طریقے سے مجھ پر وارد ہوتا ہے اس سے بہت سی ایسی یادیں ذہن میں ابھرآتی ہیں جو دفن ہو کر بالکل ختم ہو گئی تھیں مگر اس نے بھی کمال کیا بہت پرانی‘بلکہ یہی پرانی باتوں کو ایک ککرمتے کی طرح پرانے درخت کے سیلے تنے پر ابھار دیا۔ جس طرح حبس کے دنوں میں زمین سے کھمبیاں برآمد ہوتی ہیں‘ اسی طرح ذہن کی سرزمین سے کھمبیوں جیسے واقعات نمودار ہونے لگتے ہیں چھوٹے بڑوں سے سیکھتے ہیں اور بڑوں کی نقالی کرتے ہیں‘ میرے ماموں کو اپنے دفتر میں کچھ مشکلات کا سامنا تھا انکی اپنی باس سے نہیں بنتی تھی اور جن ملازموں کی باس سے بنتی تھی وہ بھی ماموں کو اچھے نہیں لگتے تھے میرے ماموں اپنے افسر کے خلاف اور اپنے ساتھیوں کیخلاف گمنام خط لکھا کرتے تھے اور اس میں انکی برائیاں بڑی تفصیل سے بیان کیا کرتے تھے‘اکثر انکے یہ خط میں پوسٹ کرکے آتاتھا اور مختلف ڈاکخانوں سے کرتا تھا کہ یہ احساس نہ ہو کہ سارے خط ایک ہی جگہ سے آتے ہیں۔
ماموں کی دیکھا دیکھی میں نے اور گوردیال نے بھی گمنام خط لکھنے کا ڈول ڈال دیا سب سے پہلا ماسٹر کولکھا یہ بڑا ہی ظالم ماسٹر تھا کندھے کے نیچے ڈولے میں اس زورکی چٹکی کاٹتا کہ بازو کی بوٹی ہی نکال لیتا‘ ایک دفعہ ہم بیٹھے تھے‘میرا کزن جو میرا ہم عمر ہی ہے‘ اس کا نام اکرام ہے‘ وہ اپنے پہلے بچے کی پیدائش کا ذکر کررہاتھا‘وہ پتوکی میں بڑے زمیندار ہیں‘ وہاں انکی زمینیں ہیں‘وہ بتانے لگے کہ جب ان کے بچے کی پیدائش کا وقت آیا تو تب شام یا رات کا وقت تھا اور وہ تھوڑے پریشان ہوئے‘میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ گاڑی نکالیں ہمیں لاہور جانا چاہئے اور آدھی رات کو لاہور پہنچ گئے‘ہم سب گھر کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے‘ وہاں میری چھوٹی بہن بھی موجود تھی‘اس نے کہا کہ اکرام بھائی اگر خدانخواستہ رات کو سفر کے دوران کوئی پیچیدگی ہوجاتی تب آپ کیا کرتے‘تو وہ کہنے لگے کہ اگر کوئی پیچیدگی پیدا ہوجاتی تو میں فوراً ریحانہ (بیوی)کو ڈرائیونگ سیٹ سے اٹھا کر پیچھے لٹا دیتا اور خود گاڑی چلانے لگ جاتا۔
اس سے یہ پتہ چلا کہ اس نے ساری رات ڈرائیونگ بھی اپنی بیوی ہی سے کرائی ہے اور خود مزے سے لیٹے رہے ہیں‘آپ نے گھروں میں اپنے بھائی‘ بڑوں کو دیکھا ہوگا کہ وہ کسی کام میں دخل نہیں دیتے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید دخل نہ دینے سے کچھ فائدہ پہنچتا ہے‘ حالانکہ اس سے ہرگز ہرگز کوئی فائدہ نہیں پہنچتا‘حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں جتنے بھی تاجر اور دکاندار ہیں ان کو سوائے اپنی ذات کے اور اپنی زندگی کے اور کسی چیز سے کوئی تعلق یا سروکار نہیں‘مزے سے تجارت کررہے ہیں‘ ان کی چھوٹی سی دنیا ہے اور وہ اسی تجارت کے اندر گھومن گھیری انداز سے چکر کاٹ رہے ہیں‘ باہر لوگ کیسے آبادہیں‘ان کی کیسی مشکلات ہیں ان کو کیا کرنا چاہئے‘وہ اس بارے بالکل کچھ نہیں جانتے‘وہ سارے کے سارے اپنی اپنی غاروں میں بیٹھے ہوئے ہیں‘ان کا اپنی ہی ذات سے واسطہ ہے۔
ہمارے کیا تقاضے ہیں‘ہم ان سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ ہم سے بات نہیں کرنا چاہتے کھانا بھی ہمارے جیسا کھاتے ہیں لیکن وہ ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتے‘جب ہم پلٹ کر اپنے اس دکھ کا اظہار اپنی ذات سے کرتے ہیں توپتہ چلتا ہے کہ ہم بھی ایسے ناقد ہیں‘بس تنقید کرنے پرمجبور ہیں اور ہمیں بھی کچھ پتہ نہیں چلتا‘ کس کو ہماری ضرورت ہے‘ ہم کس کی کس طرح سے مدد کرسکتے ہیں‘ہمارے ملک کے کسی باشندے کو کیا تکلیف ہے‘ ہمیں معلوم نہیں‘ ہم بھی بھائی اکرام جیسے ہی ہیں اور سوچتے ہیں کہ اگر تکلیف ہوگی تو میں موٹر چلالوں گا ورنہ بیوی گاڑی چلاتی رہے۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)