مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ میں ایک ڈپٹی سیکرٹری کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ وہاں ایک آدمی آگیا‘وہ ڈپٹی سیکرٹری صاحب اسے دیکھ کر گھبراگئے‘ حیرت اور گھبراہٹ سے اس سے کہنے لگے ہاں جی آپ کیسے یہاں آئے؟اس نے کہا کہ جی میں بڑے دروازے سے آیا ہوں‘ انہوں نے کہا کہ بڑے دروازے سے تو آئے ہو لیکن آپ کو آنے کس نے دیا ہے؟ اس نے کہا کہ جی وہاں پر جو دربان ہے اس نے مجھ سے کہا کہ آپ آج نہیں کل چلے جانا۔ یہ سن کر گھر چلا گیا۔ میں آج آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں‘وہ پوچھنے لگے کہ آپ اوپر کیسے آئے؟ وہ شخص کہنے لگا کہ جی میں سیڑھیاں چڑھ کر آیا ہوں‘میں نے لفٹ والے سے کہا تھا کہ مجھے اوپر لے جا لیکن اس نے کہا کہ یہ افسروں کی لفٹ ہے‘میں نے کہا کہ یہ دوسری لفٹ ہے اس سے بھیج دو تب اس نے کہا کہ یہ ڈپٹی سیکرٹری کی لفٹ ہے‘ میں نے کہا کہ یہ تیسری‘ اس نے کہا کہ یہ سیکرٹری صاحب کیلئے ہے اور اس لفٹ والے نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ نے اوپر جانا ہی ہے تو آپ سیڑھیاں چڑھ کر چلے جائیں اور میں سیڑھیاں چڑھتا چڑھتا آپ کی خدمت میں حاضر ہوگیا‘ ڈپٹی سیکرٹری صاحب نے کہا کہ آپ کو کیا کام ہے؟ اس نے جواب دیا کہ مجھے فلاں کام ہے تو انہوں نے کہا کہ اس کام کیلئے آپ کو خط لکھنا چاہئے تھا‘اس شخص نے کہا کہ جی میں نے لکھا تھا‘تب انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں ملا‘ اس بیچارے شخص نے کہا کہ نہیں جی وہ آپ کو پہنچ جانا چاہئے تھا کیونکہ میں نے اسے رجسٹری میں ارسال کیا تھا‘اس پر ڈپٹی سیکرٹری صاحب نے کہا کہ اگر تم نے وہ بذریعہ رجسٹری بھیجا تھا تو ہمیں پہلے ڈاکخانے سے اسکی تصدیق کرنی چاہئے تھی کہ کیا وہ ٹھیک طرح سے ڈیلیور ہو گیا ہے کہ نہیں‘ اس نے کہا کہ میں جناب عالی ڈاکخانہ سے تحقیق کر چکنے کے بعد ہی حاضر ہوا ہوں‘ وہ ٹھیک ڈیلیور ہو گیاہے اور چودہ تاریخ کو آپ کے دفتر میں پہنچ گیا ہے‘ صاحب نے کہا کہ آپ کو فون کرنا چاہئے تھا‘آپ یہاں کیوں آ گئے؟ ڈپٹی سیکرٹری صاحب کی یہ باتیں سن کر وہ شخص شرمندہ اورپریشان ہو کر واپس سیڑھیاں اتر گیا اور جانے سے پہلے کہنے لگا اچھا جی میں پھر کسی کو لاؤں گا یا کوئی زور ڈلواؤں گا۔ایک اور مقام پر رقم طراز ہیں کہ میں نے ایک عجیب چیز نوٹ کی وہ یہ کہ ایک اور قسم کا نشہ بھی ہے اور آپ مجھے اس بات کی اجازت دیں کہ میں اسے نشہ کہوں کیونکہ وہ ہماری زندگیوں پر بہت شدت کے ساتھ اثر انداز ہے وہ نشہ سٹریس کا ہے اس نشے کو ہم نے وطیرہ بنا لیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک ہم سٹریس نہیں لیں گے اس وقت تک ہم نارمل زندگی بسر نہیں کر سکتے آپ محسوس کریں گے کہ اس نشے کو ترک کرنے کی اس نشے سے بھی زیادہ ضرورت ہے میں ایک بار کچہری گیا‘ ایک چھوٹا سا کام تھا اورمجھے باقاعدگی سے دو تین دن وہاں جانا پڑا۔ کئی سیڑھیاں چڑھ اور اتر کر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ بہت سے میری عمر سے بھی زیادہ عمر کے بابے کچہری میں بنچوں کے اوپر بیٹھے ہوئے ہیں اور مقدمے لڑ رہے ہیں‘میں نے اپنی عادت کے مطابق ان سے پوچھا کہ آپ کیسے آئے ہیں کہنے لگے جی ہمارا مقدمہ چل رہا ہے‘ میں نے کہا کب سے چل رہا ہے ایک بابے نے کہا کہ پاکستان بننے سے دو سال پہلے سے چل رہا ہے اور ابھی تک چلا جا رہا ہے‘ میں نے کہا کہ مقدمہ کس چیز کا ہے اس نے بتایا کہ ہماری نوکنال زمین تھی اس پر کسی نے قبضہ کر لیا ہے میں نے کہا آپ دفع کریں‘ چھوڑیں اس قصے کو وہ کہنے لگا کہ جی اللہ کے فضل سے بچوں کا کام بڑا اچھا ہے اور میں اس کو دفع بھی کر دوں لیکن اگر مقدمہ ختم ہو جائے تو میں پھر کیا کروں گا۔ مجھے بھی تو ایک نشہ چاہئے صبح اٹھتا ہوں کاغذ لے کر وکیل صاحب کے پاس آتا ہوں اور پھر بات آگے چلتی رہتی ہے اور شام کو میں گھر چلا جاتا ہوں۔ (اشفاق احمد کے ریڈیو پروگرام سے اقتباس)
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات