فرانس میں اتوار کے روز ہونیوالے صدارتی الیکشن سے پہلے اسکے بارے میں دو اہم باتیں کی جا رہی تھیں ایک تو یہ کہ اس کانتیجہ جو بھی ہو یہ ایک زلزلے کی مانند ہو گا Whatever its outcome it will be an earthquake اور دوسری بات یہ کہ اس الیکشن کا نتیجہ جو بھی ہو میرین لی پین جیت چکی ہے Marine Le Pen has already won صدر ایمینول میکرون نے 58.5 فیصد ووٹ لیکر یہ الیکشن اچھی خاصی اکثریت سے جیت لیا ہے لیکن انکی مد مقابل میرین لی پین نے 41.5 فیصد ووٹ لیکر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ فرانس کی آبادی کے ایک بڑے حصے کی نمائندگی کرتی ہیں وہ اگر ایک روایتی سیاسی لیڈر ہوتیں تو انہیں غیر اہم سمجھا جا سکتا تھا مگر وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح ایک لارجر دین لائف پاپولسٹ لیڈر ہیں اور فرانس کا قوم پرست طبقہ دو دہایوں سے انکے ساتھ کھڑا ہے پانچ سال پہلے ہونیوالے انتخابات میں بھی وہ ایمینول میکرون کی مد مقابل تھیں اسوقت انہوں نے 33.9 فیصد اور میکرون نے 66.1 ووٹ لئے تھے یورپ اور امریکہ میں انکے مخالفین انہیں دھیرے دھیرے اقتدار کے ایوانوں کی طرف بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں اتوار کے دن میرین لی پین کی شکست کی خبر سنکر بائیڈن انتظامیہ نے سکھ کا سانس لیا اس الیکشن کے نتائج اگر مختلف ہوتے تو اسکا سب سے زیادہ نقصان یورپی یونین اور امریکہ کو ہوتا۔
میرین لی پین نہ صرف یوکرین جنگ کے خلاف ہیں بلکہ وہ NATO کی پالیسیوں کو یورپ کیلئے خطرناک سمجھتی ہیں روس کیلئے انہوں نے اپنی ہمدردیوں کو کبھی نہیں چھپایاوہ اگر صدر منتخب ہو جاتیں تونیٹو اتحاد کی روس مخالف پالیسیوں کو سخت نقصان پہنچتا۔صدر بائیڈن بمشکل تمام یورپی یونین کے انتیس ممالک کو ساتھ لیکر روس کا مقابلہ کر رہے ہیں۔آٹھ ہفتوں سے جاری رہنے والی یوکرین جنگ میں روس کو کئی محاذوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یوکرین کے دارلخلافے Kyivکا محاصرہ ختم کرکے روسی فوج واپس جا چکی ہے۔یہ سب اسلئے ممکن ہوا کہ امریکہ نے اب تک یوکرین کو دو ارب ڈالر کا جدید اسلحہ بھیجا ہے۔ اسمیں زیادہ تر ٹینک شکن Javeline Missiles اور طیارہ شکن سٹنگر میزائل ہیں۔ صدر بائیڈن نے چند روز پہلے800 ملین ڈالر کا مزید اسلحہ بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ میرین لی پین نے اپنی انتخابی مہم میں روس کو تنہا کرنے کی پالیسی کی سخت مخالفت کی تھی۔وہ روس کو یورپ کا حصہ سجھتی ہیں اور کسی بھی یورپی ملک کے خلاف نیٹو کی جنگ کو یورپ کی سا لمیت پر حملہ تصور کرتی ہیں انتخابی مہم کے دوران میرین لی پین نے کہا تھاکہ یہ الیکشن فرانس کے دفاع کے بارے میں ہے اس الیکشن میں لوگوں نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ فرانس کو کون مہنگائی‘ کوروناوائرس‘ یوکرین جنگ اور تارکین وطن سے بچائے گا۔
مغرب کے کسی بھی دوسرے پاپولسٹ لیڈر کی طرح وہ شہروں سے دور رہنے والے لوگوں کی محرومیوں اور غم و غصے کی ترجمانی کر تی ہیں۔آبادی کے اس طبقے کوایمینول میکرون سے یہ شکایت ہے کہ انہوں نے گزشتہ پانچ سال میں انکے مسائل پر توجہ نہیں دی اور خوشحالی کی برکھا شہری اشرافیہ پر برستی رہی تارکین وطن کے بارے میں قوم پرستوں کاکہنا ہے کہ یہ لوگ کام نہیں کرتے اور انکے ملک کے ویلفیئر سسٹم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اس من گھڑت الزام کو زیادہ تر فرانس کے مسلمان شہریوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔فرانس میں مسلمانوں کی تعداد چھ ملین ہے جو کہ کل آبادی کا دسواں حصہ ہے۔ میرین لی پین کی نیشنل ریلی پارٹی بنیادی طور پر مسلمان مخالف جماعت ہے۔ میرین لی پین نے 2015 سے ہی مسلمان مخالف مہم شروع کر دی تھی اس مہم میں انہیں اتنی کامیابی ملی کہ فرانسیسی سیاست کے کونے کھدرے میں پڑی انکی جماعت اچانک قومی دھارے کا حصہ بن گئی اسکے بعد سے انکی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے چند روز پہلے تک وہ اپنی انتخابی مہم میں حجاب کی شدید مخا لفت کرتی رہیں۔
بدھ کے روز ہونیوالے ٹی وی مباحثے میں صدر میکرون نے کہا کہ لی پین جس شدت سے حجاب کی مخالفت کر رہی ہیں وہ فرانس کو ایک خانہ جنگی کی طرف لیجا سکتا ہے۔ان مسلم مخالف جذبات کے تناظر میں فرانس کا قوم پرست طبقہ لی پین کو ایسا مسیحا سمجھتا ہے جو انہیں تارکین وطن سے نجات دلانے کے علاوہ امریکہ کی یورپی معاملات میں مداخلت سے بھی چھٹکارا دلائیگا ۔میرین لی پین نے اپنے ووٹروں کو یقین دلایا تھا کہ وہ صدر منتخب ہونے پر ضروری قانون سازی کر کے فرانس مخالف تارکین وطن سے شہریت کے حقوق واپس لے لیں گی۔ مسلمان مہاجرین پر علیحدگی کی مہم چلانیکا الزام بھی عائد کیا گیاہے ایمینول میکرون نے قوم پرستوں کے ووٹ لینے کیلئے مسلمانوں کے 718 مذہبی ادارے اور مسجدیں بند کر دیں ہیں گذشتہ ایک سال میں 24877 مسلمانوں سے پولیس نے پوچھ گچھ کی اور ان پر چھیالیس ملین یوروز کاجرمانہ ہوا۔ایمینول میکرون نے دوسری مدت صدارت تو حاصل کر لی ہے مگر انہیں ایک ایسا منتشر اور بکھرا ہوا ملک ملا ہے جسکے چالیس فیصد لوگ انہیں اپنا صدر نہیں مانتے میرین لی پین کی پاپولسٹ سیاست نے فرانس کو دو متحارب دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اسی طرح امریکہ میں تکرار و تصادم کی سیاست کو فروغ دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر میکرون فرانس کو نفرت کی اس آگ میں جلنے سے بچا سکتے ہیں یا نہیں۔