بات پوری سنیں 

میرے دفتر میں ایک اکاؤنٹ آفیسر تھا‘ وہ بڑا ریگولر آدمی تھا وقت پرآنا‘ ٹکا کر کام کرنا‘ وقت پر جانا اور کچھ کامOver time کا ہو‘ اس نے کبھی اوور ٹائم جوائن نہیں کیا‘ وہ دل و جان کے ساتھ اورلگن کے ساتھ کام کرنے والاتھا۔ ایک دن وہ دفتر صبح آنے کے بجائے ساڑھے بارہ بجے کے قریب آیا‘ تو میں باہر کھڑا مالی کے ساتھ کوئی بات کر رہا تھا‘ تو وہ گزرا۔ میں نے کہا‘ یہ آپ کے آنے کا وقت ہے۔شاید مجھے ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا‘ لیکن شاید میں تھوڑا غصے میں تھا  اس نے کہا‘ میں معافی چاہتا ہوں‘میں نے کہا‘ نہیں معافی کہنے سے تو کام نہیں بنے گا‘ ساڑھے بارہ کوئی ٹائم نہیں ہے‘ چلیے آپ دس منٹ پندرہ منٹ لیٹ ہو جاتے تو خیر ……؟ میں تو اس کا بہت سختی سے نوٹس لوں گا اور میں آپ کی ACR میں لکھوں گا۔
 یہ ساری بات کرکے میں نے کہا‘ آپ میرے دفتر میں آئیں‘ بات کریں‘ تو وہ آکے بیٹھ گیا۔اس نے آ کر کہا‘ میں بہت معافی چاہتا ہوں‘ میں بڑا شرمندہ ہوں کہ میں وقت پر نہیں آ سکا‘ میں نے کہا خالی شرمندگی سے کچھ نہیں بنتا یہ تو آپ کو Explain کرنا پڑے گا۔ کہنے لگا نہیں‘ بس آپ مجھے معاف کر دیں‘میں باس تھا‘ جیسے ہوتا ہے باس‘ ۔ تو میں نے کہا‘ نہیں وہ کہنے لگا بات یہ ہے کہ میری بیٹی تھرڈ ائیر میں پڑھتی ہے‘وہ رات اپنی ماں سے جھگڑی اور غصے میں آئی‘ ماں کی اور بیٹی کی کچھ توتو میں میں ہوئی‘ وہ گھر سے نکل گئی‘ میں آیا تو روکے کہا میری بیوی نے کہا بیٹی تو نہیں ہے۔ میں نے کہا‘ میں کہاں ڈھونڈوں سردیوں کی رات میں اسے۔
 ساری رات بے چارہ آدمی‘ شریف سا‘ نیک سا آدمی اور جوان بیٹی چلتا رہا تلاش کرتا رہا۔ بعد میں کافی تلاش کے بعد مجھے خیال آیا‘ وہ ایک سہیلی کا ذکر کیا کرتی تھی گیا تو اس کے گھرکا دروازہ جاکے کھٹکھٹایا رات کے وقت ڈیڑھ بجے تو اس سہیلی کا والد نکلا‘ میں نے اس سے ڈرتے ڈرتے پوچھا تو اس نے کہا دونوں سہیلیاں سوئی ہوئی ہیں‘ صبح میں اپنی بیوی کو لے کر گیا‘اس کی منت خوشامد کی تو میں ذرا سا بیٹھ کے سو گیا کرسی پر ہی‘ تو ساڑھے بارہ بجے میری آنکھ کھلی‘ تو میں یہاں آ گیاہوں۔  جب وہ یہ بات کہہ چکا خواتین و حضرات اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میرے پاس اس کو جواب دینے کیلئے یا خفت مٹانے کیلئے کچھ نہیں تھا۔ (اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)