کارکنوں کا جذبہ

اداروں کی تعمیر و ترقی میں کارکنوں کا جذبہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے پی ٹی وی کے سابق سربراہ آغا ناصر 1972ء کے ملکی حالات اور ان میں ٹی وی کارکنوں کے جذبے سے متعلق لکھتے ہیں کہ 1972ء کے آغاز میں ایک بار پھر لاہورسے تبادلہ ہو کر راولپنڈی جا رہا تھا‘ کارکنوں کی اس بار بھی یہی خواہش تھی کہ میرے اعزاز میں بڑے پیمانے پر الوداعی دعوت کا اہتمام کیا جائے‘ مگر میں نے سختی سے انہیں منع کر دیا‘لاہور میں تین مہینے کے مختصر قیام کے دوران بہت سے اہم کام ہوئے‘پروگراموں کے حوالے سے میرے پیشہ ور ساتھیوں نے اپنی بہترین کارکردگی دکھائی‘ نئی جمہوری حکومت کیلئے سب نے دل و جان سے پوری لگن کے ساتھ کام کیا‘ ایک اور قابل ذکر بات یہ ہوئی کہ لاہور ٹیلی ویژن کی نئی عمارت مکمل ہو چکی تھی‘لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اب اس عالیشان عمارت میں منتقل ہو جانا چاہئے‘ حکام بالا کی اجازت کے بعد ہم نئی عمارت میں منتقل ہو گئے‘ البتہ اسٹوڈیو تیار ہونے میں ابھی کچھ وقت تھا اس لئے پرانے اسٹوڈیو ہی سے نشریات کا سلسلہ جاری رہا‘ نئی عمارت میں منتقلی کے لئے ہم نے ٹرکوں کا انتظام نہیں کیا‘ چونکہ پرانا دفتر بہت قریب تھا‘ لہٰذا اس دور کی عوامی روح کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک اتوار کی صبح ہم سب نے مل کر خود سارا سامان ٹی وی کی نئی عمارت میں پہنچایا‘ اس موقع پر میں نے خاص طور پر سابق جنرل منیجر آغا بشیر کو مدعو کیا کہ نئی عمارت میں پہلا قدم وہی رکھیں گے یہ قطعہ اراضی جس پر یہ عمارت بنا لی گئی تھی آغا صاحب ہی کی کوششوں سے الاٹ ہواتھا‘اسلام آباد واپس جانے سے قبل میں شام کے بعد اسٹوڈیو والے حصہ میں گیا‘ اسٹوڈیو اور کنٹرول روم میں جا کر میرا دل بڑا بھاری ہو گیا‘ یہ وہی اسٹوڈیو تھا جہاں سے میں نے نومبر1964ء میں اپنی ٹیلی ویژن کی زندگی کا آغاز کیا تھا‘ اس اسٹوڈیو میں میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ زندگی کے پانچ کامیاب اور مصروف سال گزارے تھے‘ کتنے ہی مقبول اور معیاری پروگرام پیش کئے تھے مجھے یوں لگا جیسے یہ سارے پروگرام صف بستہ میرے سامنے کھڑے ہیں‘ میں دوسری بار اس اسٹوڈیو کو الوداع کہہ رہاتھا‘ جب میں وہاں پہنچا تو ٹرانسمیشن کا آغاز ہو چکاتھا مگر کوئی گہما گہمی نہیں تھی‘ اب سات سال پہلے والی بات کہاں تھی کہ جب ساری نشریات براہ راست ہوتی تھیں‘ ان دنوں اس اسٹوڈیو میں ایک میلہ سا لگا ہتا تھا‘ اس شام شہنشاہ نواب ٹرانسمیشن کنٹرول کی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے‘ لاہور کے مختصرقیام کا زمانہ ختم ہو گیا تھا‘ راولپنڈی کی واپسی کا پروانہ مل چکاتھا‘ میرا تقرر ڈائریکٹر پروگرام ایڈمنسٹریشن کے طور پر ہونے والا تھا‘ نئی حکومت بہت سی خوشگوار تبدیلیاں کر رہی تھی‘ اس کے علاوہ وزارتی سطح پر بھی تبدیلی ہوئی تھی‘ لاہورمیں اپنا آخری دن میں نے الوداع کہنے میں گذارا‘ اسٹاف کے سارے لوگ میرے جانے سے رنجیدہ تھے مگر ساتھ ہی اس بات پر خوش بھی تھے کہ میں راولپنڈی جانے کے بعد جلد ہی ڈائریکٹر ے عہدے پر ترقی پاک کر بڑاافسربن جاؤں گا۔اسی طرح ایک اور مقام پر آغا ناصر رائٹرز گلڈ کے حوالے سے اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں‘ 1958ء میں شاہد احمد دہلوی‘قرۃ العین حیدر اور جمیل الدین عالی نے رائٹرز گلڈ کی داغ بیل ڈالی قدرت اللہ شہاب کو اس کا سیکرٹری جنرل بنایا گیا اور یوں ادیبوں کا ایک بڑا ادارہ وجود میں آیا کراچی ریجن کی گلڈ میں میرا نام بھی شامل تھا ریجن کے سیکرٹری طفیل احمد جمالی تھے وہ مجھے بہت پسند کرتے تھے انہوں نے مجھے ریجن کے الیکشن میں اپنے پینل میں شامل کرلیا اس طرح میں پاکستان رائٹرز گلڈ کی ایگزیکٹو کا ممبر منتخب ہوگیا اب ادبی حلقوں میں میرا رتبہ اور بلند ہوگیا‘کراچی کے نامور ادیبوں‘شہرت یافتہ شاعروں اور دانشوروں سے میری ملاقاتوں کے سلسلے بڑھتے گئے پھر جب ایک کل پاکستان کنونشن میں شرکت کیلئے لکھنے والوں کا وفد ملتان گیا تو میں بھی اس میں شامل تھا اس کنونشن میں جو خواجہ فریدؒ کے عرس کے موقع پر منعقد کیا گیا تھا سارے ملک سے ادیب اور شاعر شرکت کے لئے آئے تھے اس موقع پر میری ملاقات بہت سی ایسی شخصیات سے ہوئی جن سے گفتگو کرنے کی خواہش ہمیشہ سے میرے دل میں تھی‘گلڈ کے قیام کے سلسلہ میں شہاب نے اپنی کتاب’شہاب نامہ‘ میں اسکا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے ایک روز میں اپنے دفترمیں بیٹھا کام کررہا تھا کہ اچانک قرۃ العین حیدر‘جمیل الدین عالی‘ غلام عباس‘ابن الحسن اور عباس احمد عباسی تشریف لائے باتوں باتوں میں انہوں نے کہا کہ آج کل ہر محفل میں گفتگو کا رخ مارشل لاء کی طرف مڑ جاتا ہے‘ ادیبوں میں بھی اس موضوع پر مختلف النوع خیال آرائیاں ہوتی رہتی ہیں چند دوستوں کا خیال ہے کہ اب تک ہمارے ملک میں ادیبوں کی فلاح وبہبود کیلئے کسی نے سوچا ہے نہ کبھی کچھ کہا ہے‘ آج کل جب یہ فوجی حکومت زندگی کے ہرشعبہ میں تعمیر‘ ترقی و بہبود کے نت نئے کام کرنے کی کاوش کررہی ہے تو موقع ہے کہ اس بات کو آزماکر دیکھیں کہ حکومت کے بلند وبانگ دعوؤں میں ادیبوں کی ویلفیئر کیلئے بھی کوئی گنجائش نکل سکتی ہے یا نہیں؟انہوں نے مزید بتایا کہ بابائے اردو کی موجودگی میں بھی یہ تذکرہ آچکا ہے اور وہ بھی اس قسم کی کوشش کے حق میں مائل نظر آتے ہیں‘چند روز بعد یہی حضرات دوبارہ تشریف لائے اور اپنے ساتھ ایک اعلان کا مسودہ بھی لائے جو انہوں نے ادیبوں کا کنونشن بلانے کیلئے تیار کیا تھا‘29,30,31 جنوری 1959کو کل پاکستان رائٹرز کنونشن کراچی میں منعقد ہوا جس میں ملک بھر سے 212ادیب شریک ہوئے سب مندوبین نے اتفاق رائے سے گلڈ کی بنیاد ڈالی۔