قارئین کرام۔پشاور کے ہندکو وان اکشر کہتے ہیں کہ باغ کی بہار ہے یا دل کی بہار ہے میں نے پہلی مرتبہ یہ محاورہ اپنی والدہ محترمہ سے سناتھا اور اسکے بعد بھی بیسیوں مرتبہ سنا کبھی یہ محسوس ہوا کہ حزن و یاس کی کسی کیفیت سے چھٹکارے کیلئے اسے استعمال کیا گیا ہے اور کبھی اسے کسی برجستہ اور اچانک خوشی کے اظہار کا ذریعہ سمجھا میں اسبات پر غور کرتا رہونگا کہ ایک محاورہ دو مختلف کیفیتو ں کو کیسے بیان کر سکتا ہے کسی بھولی بسری عید کی طرح یہ پشوری محاورہ اچانک میرے سامنے اسلئے آ کھڑا ہوا کہ چند لمحے پہلے ٹھیک اسوقت جب رمضان المبارک میں افطاری ہوا کرتی تھی میں ڈائیننگ روم میں گیا تو اہل خانہ حسب معمول کھانے کی میزکے گرد موجود تھے مجھے حیرانگی ہوئی پوچھا کہ آپ نے کیا آج بھی روزہ رکھاہے جواب ملا کہ بس عادت سی ہو گئی ہے مجھے کالم لکھنا تھا اسلئے میں چلا آیا ابھی تک سوچ رہا ہوں کہ کل عید کاپہلا دن تھا اچھی خاصی گہما تھی عید کی نماز پر کم از کم آٹھ نو سو لوگوں کا اجتماع تھا نما ز کے بعد مسجد میں برنچ کا بندو بست بھی تھا پندرہ برس پہلے اسی مسجد میں عید کی نماز پر ڈھائی تین سو لوگ ہوا کرتے تھے اب تعداد بڑھ گئی ہے تو ہال کی بجائے باہر وسیع و عریض پارکنگ لاٹ میں ٹینٹ لگا کر نئے حقائق کیساتھ سمجھو تہ کر لیا گیا ہے زندگی کو ویسے بھی Grand Compromise کہا گیاہے۔
پیرانہ سالی میں جب کوئی گھوم کر دیکھتا ہے تو اسے سمجھوتوں کا ایساانبار نظر آتا ہے کہ نظر دھندلا جا تی ہے یاد نہیں رہتا زندگی کہاں سے شروع کی تھی اور کیا یہ ضروری ہے کہ زندگی کی شروعات کو یاد رکھا جائے میرے خیال میں یہ بات یاد رکھنا بیحدضروری ہے مجھے اگر پشاور کی نمکمنڈی میں واقع اپنا گھر یاد نہ ہوتا تو میرے بچے اتنی پابندی کیساتھ روزے نہ رکھتے مجھے برسوں پہلے کی سحریاں اور افطاریاں یاد نہ ہوتیں تو آج میرے گھر میں وہ ماحول نہ ہوتا جو میرے والدین کے گھر میں ہوتا تھا میری اہلیہ کو بھی اگر اپنے والدین اور اپنا پشاور والا گھر یاد نہ ہوتا تو وہ رمضان کی ہرشام دسترخوان پر وہ تمام کھانے نہ سجاتی جو پشاور میں افطاری کیلئے لازم ملزوم سمجھے جاتے ہیں سوا سو برس پہلے مشہور امریکی ناول نگار ولیم فاکنر نے کہا تھا The past is never dead. It is not even past. یعنی ماضی کبھی نہیں مرتا یہ تو ماضی ہے ہی نہیں آدمی ماضی کو بھلانے کی کوشش نہ ہی کرے تو بہتر ہے یہ دریا کے پانی کی طرح ساتھ ساتھ چلتا رہے تو بہتر ہے مگر یہ بڑا کٹھور ہے اسکے بارے میں ایک دانشور نے کہا ہے زندگی پلٹ کر دیکھنے تو دیتی ہے پلٹنے نہیں دیتی سپنے رہ جاتے ہیں یا آنکھ کی نمی۔سراج اورنگ آبادی کا شعر ہے۔
خبر تحیر عشق نہ سن جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہاجو رہی سو بے خبری رہی
کسی نے ماضی کو سپنے اور آنکھ کی نمی کہا تو کسی نے اس خرابے کو بے خبری کے حوالے کر دیا ہر دو صورتوں میں نتیجہ یہی ہے کہ انسان کتنے ہی جتن کیوں نہ کرے زندگی اسکے قابو نہیں آتی یہ ایک بحر بیکراں کی طرح بڑھتی ہی چلی جاتی ہے انسان کو اسکے دھارے کے ساتھ بہنا ہی پڑتا ہے کبھی کبھی نوکیلی چٹانیں بھی راستے میں آ جاتی ہیں ان سے بھی نباہ کرنا پڑتا ہے رفتہ رفتہ ہر خوشی غم تکلیف اور راحت ماضی کے بھنور کا حصہ بن جاتی ہے گویا ماضی کا جہان ہی سب کچھ ہے سارا سال ہم مصروفیتوں کا کوہ گراں اٹھائے پھرتے ہیں رمضان المبارک میں یہ گاڑی رک جاتی ہے سحری اور افطاری باقی سب مصروفیتوں پر سبقت لے جاتی ہیں یہ ماضی کو نئے سرے سے تخلیق کرنے یا Recreate کرنے کا ایک موقع ہوتا ہے نیویارک کے مسلمان اس سے جی بھر کر فائدہ اٹھاتے ہیں دل کھول کر روزے بھی رکھتے ہیں اور دل کھول کر افطاریاں بھی کرتے ہیں۔
مجھے یہ کیسے پتہ چلا چند روز پہلے میں نے امریکہ کے مسلمانوں کے بارے میں Insitute For Social Policy And Understanding کی مرتب کردہ ایک رپورٹ پڑھی اسمیں لکھا ہے کہ نیو یارک میں تقریباّّ آٹھ لاکھ مسلمان رہتے ہیں امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد بیس ملین کے لگ بھگ ہے یہ سب مختلف ممالک سے آئے ہوے ہیں ان میں وائٹ کالر پیشہ ور خواتین و حضرات سے لیکر یومیہ اجرت پر ملازمتیں کرنیوالے اور چھوٹے بڑے کاروباری شامل ہیں نیویارک میں اسلام آبادی کے لحاظ سے مسیحیت اور یہودیت کے بعد تیسرا سب سے بڑا مذہب ہے اس رپورٹ کے مطابق نیو یارک کے مسلمانوں نے 2018میں 608 ملین ڈالر رفاہی اداروں کو دئے یہ اس رقم سے تینتیس فیصد زیادہ ہے جو دوسرے مذاہب کے لوگوں نے دی پورٹ میں لکھا ہے کہ مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ دولت امتحان ہوتی ہے یہ خدا کی دین ہے اور ہمیں اسے ذمہ داری اور سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہئے۔
پچھلے سال نیویارک یونیورسٹی کے اسلامک سنٹر نے 2.5 ملین ڈالر جمع کئے جو کہ تمام عقائد سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں تقسیم کئے گئے رواں سال میں اسی گروپ نے چھ لاکھ ڈالر افغانستان میں رفاہی کاموں کیلئے بھیجے اسکے علاوہ زکوٰۃ فنڈ کے نام سے ایک رفاہی ادارہ ہر سال رمضان المبارک میں لاکھوں ڈالر تمام عقائد کے لوگوں میں تقسیم کرتا ہے اس رپورٹ کے مطابق نیویارک سٹیٹ کی ہر مسجد میں ہر شام مفت افطاری کا بندوبست ہوتا ہے اس جگہ مسلمان کسی بھی ملک کا ہو‘ وہ گھر میں افظاری کرے یا مسجد میں دوسروں کا حصہ وہ ضرور نکالتا ہے یہ کئے بغیر وہ اپنے عقیدے سے انصاف نہیں کر سکتا نیویارک کے مسلمان اسلئے دوسروں سے زیادہ زکوٰۃ دیتے ہیں کہ نیویارک نے انہیں بہت کچھ دیا ہے یہ دل کی بہار بھی ہے اور باغ کی بہار بھی ہے افتخار عارف نے کہا ہے۔
چاہئے خانہ دل کی کوئی منزل خالی
شائد آ جائے کہیں سے کوئی مہمان عزیز