خواتین وحضرات! ہمارے اندر کا جو مخفی خزانہ ہے‘وہ بھی ہمت‘ جرات اور قربانی کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر کی خوبیاں باہر لانے کیلئے جہد کریں اپنے وجود کو ڈھیلا چھوڑ دیں کچھ وقت کیلئے دنیا کے مصائب والم کو بھول جائیں اور بالکل مثبت انداز میں سوچنا شروع کردیں تو ہمارے خزانے باہر آنا شروع ہوجائیں اور ہمیں اپنی جس صلاحیت کا پتہ نہیں ہے‘ اس کا پتہ چلنے لگے‘اب آپ یہ معلوم کرنے کیلئے کہ تیراک کون ہے کسی کو پانی میں دھکا نہ دے دیجئے گا یہ میں مثال کے طور پر کہہ رہا ہوں۔ ایک واقعہ میں سناتا ہوں کہ نہر‘دریا‘ کسی اور جگہ جہاں پانی کافی گہرائی میں تھا‘ایک بچہ پانی میں ڈوب گیا اب وہاں کافی لوگ جمع تھے لیکن کسی کی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ اس بچے کو نکال لے اب یہ امید بھی دم توڑتی جارہی تھی کہ کوئی شخص پانی میں چھلانگ لگا کر اسے نکال لائے گا کہ ایک دم ایک شخص اس گہرے پانی میں کود گیا۔
پہلے تو وہ خود ہاتھ پاؤں مارتا رہا پھر اس کے ہاتھ میں بچہ آگیا اور اس نے کمال بہادری اور جوانمردی سے اس معصوم بچے کو ڈوبنے سے بچالیا اسکے اس بڑے کام سے ہر طرف تالیاں بجیں‘ لوگ تعریفیں کرنے لگے اور اس سے پوچھنے لگے کہ ’اے بہادر نوجوان ہم سب میں سے کسی کی یہ ہمت نہیں ہوئی کہ گہرے پانی میں چھلانگ لگا کر اس بچے کو بچالیں لیکن تم کتنے عظیم شخص ہو کہ تم نے یہ کارنامہ سرانجام دیا‘یہ بتاؤ کہ ’جب سب ڈررہے تھے پانی میں کودنے سے تو تم میں ہمت کیسے آئی اس نوجوان کا ان سب سے پہلا سوال تھا پہلے مجھے بتاؤ مجھے پانی میں دھکا کس نے دیا تھا‘جب ہم بچے تھے تو جب دکان سے کوئی چیز لینے جاتے تھے تو دکاندار ہمیں خوش کرنے کیلئے ’جھونگا‘(کھانے کی کوئی تھوڑی سی چیز) دیا کرتے تھے اور بچے بھاگ بھاگ کر دکانوں سے گھر کیلئے سودا لینے کے لئے جاتے تھے۔
ا ب بھی شاید دکاندار دیتے ہوں لیکن میرا خیال ہے صورتحال کافی بدل چکی ہے خواتین وحضرات! میں نے آج آپ پر کچھ زیادہ ہی بوجھ ڈال دیا لیکن یہ مجھ پر کافی بوجھ تھا جو میں نے آپ پر ڈال کر کچھ کم کرنے کی کوشش کی ہے آخر میں اس امید‘ تمنا اور دعا کیساتھ اجازت چاہوں گا کہ آپ اپنی ذات کو ٹٹولیں گے اور اپنے اندر کے اندھے کنویں کو اپنی ہمت‘عزم اور دوسروں سے محبت اور لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے جذبے کیساتھ روشن کرنے کی کوشش کرینگے۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)