قصہ ایک سفر کا

پی ٹی وی کے سابق سربراہ آغا ناصر اپنے ایک سفر کے احوال میں لکھتے ہیں مجھے جہاز کے سفر میں اجنبی مسافروں سے گفتگو کا آغاز کرنے کا کوئی تجربہ نہ تھا خاص طور پر کسی غیر ملکی کیساتھ ایسی صورتحال میں کس طرح پیش قدمی کی جانی چاہئے اس کا تو مجھے بالکل ہی اندازہ نہ تھا‘ ہمارے ہاں ریل کے سفر میں مسافروں کا ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرلینا بڑا آسان ہے کچھ طے شدہ فارمولے ہیں جن سے سارے مسافر واقف ہوتے ہیں مثلاً ریل کے ڈبے میں ساتھ بیٹھے ہوئے مسافر سے آغاز گفتگو کے لئے یہ پوچھنا عین مناسب ہے کہ آپ کہاں جارہے ہیں مگر ہوائی جہاز میں یہ سوال انتہائی احمقانہ معلوم ہوگا چونکہ جہاز تو عام طور پر ایک شہر سے اڑ کر سیدھے دوسرے شہر جاتے ہیں اور ظاہر ہے اس صورت میں ہر مسافر کی منزل ایک ہی ہوتی ہے آغاز گفتگو کا دوسرا طریقہ وقت معلوم کرنا ہے آپ کسی بھی غیر آدمی سے یہ کہہ کر گفتگو کا سلسلہ شروع کرسکتے ہیں ’معاف کیجئے وقت کیا ہوگا؟
 جہاز میں بیٹھے ساتھی مسافر سے اس طرح کا سوال کچھ عجیب سا لگتا ہے اول تو جہاز میں وقت کی بات صرف جہاز کے اترنے کے حوالے سے کی جاتی ہے مثلاً یہ کہ ’ابھی جہاز کے لینڈ کرنے میں کتنا وقت باقی ہے موسم کی بات کرنا کہ ’آج بہت گرمی ہے یا شاید بارش کا امکان ہے جہاز میں سوار ہونے کے بعد کچھ مضحکہ خیز سی بات لگتی ہے جہاز میں تو موسم کا حال بتانے کی ذمہ داری جہاز کے عملہ کی ہوتی ہے جو اناؤنسمنٹ کے ذریعہ مسافروں کو درجہ حرارت سے آگاہ کرتے ہیں میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے فربہ امریکن کو کس طرح اپنی طرف متوجہ کروں اور کس موضوع سے آغاز گفتگوہو میں اسی شش و پنج میں تھا کہ قسمت نے یاوری کی اور میرا پڑوسی خود ہی مجھ سے مخاطب ہوگیا اس نے درمیانی خالی نشست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا آپ یہ ضخیم کتاب اس خالی نشست پر رکھ سکتے ہیں۔
 آپ کے زانو دکھ گئے ہوں گے اس کا اشارہ قرۃ العین حیدر کے ناول آگ کادریا کی طرف تھا جس کو کئی گھنٹوں سے میں گود میں رکھے بیٹھا تھا میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کے کہنے پر عمل کیا اور کتاب خالی نشست پر رکھ دی اب میرے لئے گفتگو کا راستہ کھل چکا تھا۔ایک اور مقام پر آغاناصر اپنی یادداشتوں میں ٹوکیو کے ایک ریسٹورنٹ کا حال دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ٹوکیومیں آخری رات میکو ایواٹا کی رات تھی ہم ٹوکیو کے نیو اٹانی ہوٹل کے گردشی یر ریستوان میں بیٹھے تھے یہ متحرک ریستوران دائرے کی شکل میں ایک خاص رفتار سے آہستہ آہستہ گھومتا ہے اور شاید ایک گھنٹے میں اپناد ائرہ مکمل کرتا تھا یہاں سے آپ سارے ٹوکیو کا نظارہ کرسکتے ہیں یہ فضائی منظر دن کے وقت دیکھنے والوں کو دھوپ میں چمکتے میناروں‘بلندوبالا عمارتوں‘عبادت گاہوں‘باغات کا دلکش نظارہ کراتا ہے اور رات کو روشنیوں میں جگمگ کرتے بازاروں‘شاہراہوں اور شیشے کی بنی اونچی اونچی روشن عمارتوں کا منظر پیش کرتا ہے۔
 کہتے ہیں کہ بیرون ملک سے آنیوالوں کو ٹوکیو کے قیام کے دوران ایک بار ضرور نیواٹانی ہوٹل کے اس گھومنے والے ریستوران میں آنا چاہئے اس شام میکو نے مجھے ٹیلی فون کیا اور یہاں آنے کی دعوت دی‘اس نے کہا’آج ٹوکیو میں آپکی آخری رات ہے آپ میرے مہمان ہیں‘ یہ طے پایا کہ ہم شام کو سونی بلڈنگ کے استقبالیہ میں ملیں گے‘جب ہم نیواٹانی ہوٹل کے ریستوران میں پہنچے تو بارش تیز ہوچکی تھی ہم کافی بھیگ گئے تھے‘میں نے آپ سے کتنی بار کہا کہ ایک چھتری خریدلیں اس نے اپنی چھتری اور برساتی ریستوران کے استقبالیہ میں کھڑی لڑکی کے سپرد کرتے ہوئے کہا‘ تمہارا یہ مطالبہ اگلی بار آؤں گا تو پورا کروں گا‘ وہ ہنس دی اور زیر لب دہرایا اگلی بار۔۔؟ ریستوران لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اس ریستواران کی دیواریں شیشے کی ہیں جو بڑے بڑے دریچوں میں منقسم ہیں اس نے ویٹر کو کھانے کا آرڈر دیا اور کھڑکی سے باہر جھانکنے لگی بار ش تیز ہوگئی تھی آسمان پر گاہے گا ہے بجلی چمک رہی تھی اس کی روشنی میں ٹوکیو کی عمارتیں اور مینارایک بار جھلملااٹھتے اور پھر بارش اور کہر کے دھندلکوں میں ڈھک جاتے وہ دیکھو میکو نے کہا ٹوکیو ٹاور نظر آرہا ہے یہ ریستوران یوں ہی آہستہ آہستہ گھومتا رہے گا اور لگ بھگ ایک گھنٹے بعد ہم سفر کرتے ہوئے پھر اسی مقام پر آجائیں گے‘ وہ ایک ایسی بچی کی طرح جذباتی ہورہی تھی جو اپنی کسی سہیلی کو اپنے کھلونے دکھا رہی ہو میں کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا۔