سرد جنگ کے دوران امریکہ نے ان گنت ممالک میں حکومتیں بدلیں چھیالیس برسوں کے اس عرصے میں امریکہ کیلئے رجیم چینج روز مرہ کا معمول تھا‘یشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے کئی پسماندہ ممالک میں ایک سے زیادہ مرتبہ مارشل لا لگائے گئے ان دنوں جو ملک روس کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیتا تھا اسے بھاری امداد ملتی تھی یہ بات مشہور تھی کہ حلیف ممالک اپنے بل واشنگٹن بجھوا دیتے تھے جہاں انکی ادائیگی ہو جاتی تھی اس سخاوت کے بدلے چھوٹے ممالک اپنے وسائل‘ سرزمین اور افرادی قوت امریکہ کو مہیا کرتے تھے اس دور کے خاتمے کے بعد امریکہ نے ان ممالک سے ایسے آنکھیں پھیر لیں جیسے ان سے کبھی کوئی تعلق ہی نہ تھا امریکہ پر اس معاشی انحصار کی وجہ سے چھوٹے ممالک آج تک اپنے پاؤں پر کھڑے نہ ہوسکے واشنگٹن نے انکی برائے نام امداد کیلئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے قائم کئے جنہوں نے سود پر انہیں رقم مہیا کرکے انکی حالت مزید خراب کر دی۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعدعام تاثر یہی تھا کہ امریکہ رجیم چینج کی پالیسی سے دستکش ہو گیا ہے مگر اب اسکی صدائیں ایک مرتبہ پھر سنائی دیں رہی ہیں۔یوکرین جنگ شروع ہونے کے ایک ہفتے بعد ساؤتھ کیرو لائینا کے ریپبلیکن سینیٹر لنڈزے گراہم نے فاکس نیوز کو انٹر ویو دیتے ہوے کہا کہ The goal in the ongoing Ukraine war should be to take out Vladimir Putin. There is no off ramp with the Russian President remaining in Powerیعنی یوکرین جنگ کا مقصد ولادیمیر پیوٹن کی حکومت کا خاتمہ ہونا چاہئے۔روسی صدر جب تک اقتدار میں ہے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا اس انٹرویو میں لنڈزے گراہم نے یہ بھی کہا Is there a Brutus in Russia ماسکو نے اس دھمکی کو سنی ان سنی کر دیا وائٹ ہاؤس کی ترجمان Jane Psaki سے جب صحافیوں نے گراہم کے اس بیان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا This is not the position of the United States government and certainly nobody in the Biden administration has made this statement مارچ میں پولینڈ میں صدر بائیڈن نے یوکرین کے مہاجرین سے خطاب کرتے ہوے کہا Putin is a dictator bent on rebuilding an empire. For God's sake this man can not remain in powerاس بیان پر امریکہ میں اتنا شدید رد عمل سامنے آیا کہ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کو اسکی مدافعانہ وضاحت پیش کرنا پڑ گئی اسمرتبہ Jane Psaki نے کہا کہ صدر بائیڈن یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ صدر پیوٹن کو اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ طاقت کے استعمال کے ذریعے ہمسایہ ممالک پر قبضہ کر لیں ترجمان نے یہ بھی کہا کہ صدر بائیڈن رجیم چینج کی بات نہیں کر رہے تھے۔
امریکہ میں روس کے سفیر Anatoly Antonov نے کہا کہ ”یہ فیصلہ بائیڈن نے نہیں کرناروس کا صدر روسی عوام منتخب کرتے ہیں“ امریکی ماہرین نے صدر بائیڈن کے اس بیان کی مخا لفت کرتے ہوئے کہا کہ روس آج بھی ایک ایسی عالمی طاقت ہے جسکے پاس چھ ہزارسے زیادہ نیوکلیئر وار ہیڈز ہیں۔نیو یارک ٹائمز کے کالم نگار ٹام فریڈ مین نے چار مئی کے کالم میں لکھا ہے ”میں نہیں چاہتا کہ روس میں رجیم چینج کی ذمہ داری امریکہ پر عائد کی جائے“ اسکی وجوہات بیان کرتے ہوے کالم نگار نے لکھا ہے کہ پہلی بات تو یہ کہ ہو سکتا ہے پیوٹن کے بعد کوئی زیادہ سخت گیرشخص روس کا صدر بن جائے‘ دوسری بات یہ کہ روس میں انتشار پھیل جائے‘ ہم یہ صورتحال عرب سپرنگ کے دوران دیکھ چکے ہیں ضروری نہیں کہ ایک ڈکٹیٹر کے چلے جانے سے جمہوریت آ جائے اسکی جگہ افرا تفری بھی آ سکتی ہے جو زیادہ خطرناک ہے فریڈمین نے اسکی تیسری وجہ یہ بتائی ہے کہ اگر پیوٹن کی جگہ کوئی بہتر حکمران آ جاتا ہے اور اسپر یہ تہمت لگ جاتی ہے کہ وہ امریکہ کی مدد سے آیا ہے تو وہ پھر مؤثر ثابت نہ ہو سکے گا۔
ٹام فریڈ مین نے بائیڈن ٹیم کی توجہ اسطرف بھی دلائی ہے کہ بہت سے ممالک اس جنگ میں نیوٹرل ہیں وہ یہ نہیں چاہتے کہ امریکہ اور نیٹو اس جنگ میں ایک بڑا رول ادا کریں کالم نگار نے یہ دلچسپ بات بھی لکھی ہے کہ Small countries that suddenly get the backing of big powers can get intoxicated یعنی چھوٹے ممالک اکثر ایک طاقتور ملک کی اچانک حمایت حاصل ہو جانے پر بہک جاتے ہیں۔کالم نگار نے لکھا ہے کہ یوکرین کا جغرافیہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا وہ ہمیشہ ایک سپر پاور کی سرحد پر ایک چھوٹے ملک کی حیثیت سے قائم رہیگا اور امریکہ ایک طویل عرصے تک مستقل طور پراسکی مدد نہیں کر سکتا ٹام فریڈ مین نے کالم کا اختتام اس جملے پر کیا ہے When you lose, say little. When you win, say less. یعنی ہار اور جیت دونوں صورتوں میں کم بولنا چاہئے فریڈمین نے لکھا ہے کہ اسے یہ کہاوت بچپن میں اسکی بیس بال ٹیم کے کوچ نے سنائی تھی۔ امریکی میڈیا میں رجیم چینج پر اس شدید رد عمل کے بعدبائیڈن انتظامیہ نے اس قسم کے بیانات دینا بند کر دئے ہیں۔ دنیا کتنی بدل گئی ہے کیا یہ سچ ہے کہ امریکہ نے رجیم چینج کی پالیسی ترک کر دی ہے۔