ایک ملازمت چھوڑ کر دوسری اختیار کرنا ایک بڑا اور اہم فیصلہ ہوتا ہے ملک میں ٹی وی آنے پر ریڈیو چھوڑنے کا احوال پی ٹی وی کے سابق سربراہ آغا ناصر کچھ اس طرح لکھتے ہیں حکومت پاکستان نے ملک میں ٹیلی ویژن کے قیام کا فیصلہ کرلیا تھا اور اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے وزارت اطلاعات ونشریات میں ایک ٹی وی پلاننگ سیل قائم کیاگیا تھا جو چار افسران پر مشتمل تھا ان میں ٹی وی کے تربیت یافتہ افراد تھے اسکے سربراہ حکومت کے ایک سینئر افسر عبدالقیوم تھے میں عجیب شش و پنج میں مبتلاتھا تقریباً سارے گھر والے بھی کنفیوز تھے۔پھر یوں ہوا کہ ایک شام مجھے ابا جی نے اپنے پاس بلایا اس شام انہوں نے میرا ہاتھ اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں میں تھام لیا اور آہستہ آہستہ سرگوشیوں میں کچھ کہنے لگے میں جھک کر کان ان کے قریب لے گیا وہ کہہ رہے تھے تم نے مجھے کچھ بتایا نہیں انگلستان میں تم نے کیا کیا کیسے رہے تم سکاٹ لینڈ سے جو پکچر کارڈ بھیجتے تھے۔
وہ گھر والوں نے مجھے دکھائے تھے میں جانتا ہوں سکاٹ لینڈ برطانیہ کا سب سے خوبصورت علاقہ ہے وہاں کے رہنے والے خود کو انگریز نہیں سکاٹش کہتے ہیں ابا جی ٹھہر ٹھہر کر آہستہ آہستہ بول رہے تھے وہ ضرور تمہیں دریائے فورلی اور آئی لینڈ آف فائیف کی سیر کو بھی لے گئے ہونگے میں تعجب کرتا رہا کہ اس عمر میں اور ایسی لاغری میں انہیں یہ سب کچھ کس طرح یاد تھاپھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد انہوں نے کہا کہ میں جانتا ہوں آج کل گھر میں تمہارے حوالے سے کیا کھچڑی پک رہی ہے تمہاری ماں کسی صورت اس بات کیلئے تیار نہیں کہ تم اس سے دور جاؤ مگر یہ فیصلے جذبات سے نہیں عقل سے کئے جاتے ہیں میں دیکھ رہا ہوں تمہارے سامنے لامحدود ترقی کے مواقع ہیں تمہاری ذہانت اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ تم زندگی میں بہت ترقی کرو گے بہت نام کماؤ گے یہ وقت فیصلہ کا ہے جو موقع اللہ تعالیٰ نے تمہیں دیا ہے۔
اس سے ضرور فائدہ اٹھاؤ دو دن بعد بذریعہ تیز گام راولپنڈی روانہ ہوگیا میں ٹیلی ویژن کی نئی دنیا کی طر ف جارہا تھا ریڈیو پیچھے رہ گیا آگے ٹیلی ویژن تھا۔ ایک اور مقام پر آغا ناصر لکھتے ہیں میں نے ساری عمر سرکاری نیم سرکاری ملازمتوں میں گزاری‘ ملازمت کا آغاز معمولی سی سطح سے کیا ریڈیو میں ان دنوں پروگرام پروڈیوسر کی تنخواہ دو سور وپے تھی شاید مجھے اس سے بہتر ملازمت مل سکتی مگر میری ترجیحات میں سب سے پہلےJob Satisfaction تھی ریڈیو ان دنوں اگرچہ سو فیصد سرکاری محکمہ تھا مگر اس کے باوجود اس میں بہت کچھ تھا جسکی مجھے تمنا تھی میں نے یہ سب قبول کیا صرف اسلئے کہ ملازمت میری پسند کی تھی اور بڑی حد تک Job Satisfactionکی شرط کو پورا کرتی تھی‘ سرکاری ملازمت میں انسان کو ہر طرح کے افسروں سے واسطہ پڑتا ہے۔
میرے نزدیک افسروں کی تین اقسام ہیں‘بڑے افسر اور بہت ہی بڑے افسر حسن اتفاق سے مجھے زیادہ بہت ہی بڑے افسروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور زندگی میں ان سے بڑی قربت رہی‘ان افسروں کے بارے میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے میں ایسا کرنے سے گریز کروں گا کہ کسی کو بام عروج پر اور کسی کو قصداً تنزل میں پہنچانے کی کوشش کروں میرا مقصد کسی کی پگڑی اچھالنا یا کسی کا درجہ لوگوں کی نظروں میں بلند کرنا نہیں ہے میں صرف چند مثالیں دے کر صرف چند ایسے افسروں کی بات کروں گا جن کے ساتھ میں نے کام کیا ہمارے ایک بڑے شاعر جب سرکاری افسر بنائے گئے وہ ایک بڑے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود اپنے سٹاف ممبران کی حد درجہ عزت کرتے تھے اور انکے دفتری کا م اور ذاتی نوعیت کے مسائل کو سلجھانے میں اپنی تمام کوشش کرتے تھے کسی سیکرٹری‘وزیر یہاں تک کہ صدر اور وزیراعظم تک کی خواہ مخواہ تعریف ہرگز نہیں کرتے تھے اپنے سٹاف کو ہر طرح کا تحفظ دیتے تھے میں نے جن افسروں کا ذکر نام لئے بغیر کیا ہے وہ سب ان محکموں سے متعلق تھے جہاں میں کام کرتا رہا تھا۔