سکول کی عمارت

سکول کا زمانہ ہر ایک کیلئے یادگار ہوتا ہے معروف صحافی رضا علی عابدی اس کا ذکر کچھ الگ اور دلچسپ انداز سے کرتے ہوئے لکھتے ہیں‘ خدا خدا کرکے سکول کی عمارت کا مسئلہ حل ہوا اور اس نے میرے خواب میں آنا چھوڑا‘ سکول میرے لڑکپن کا سکول تھا‘ کیسی اچھی سرخ اینٹوں اور سرخ کھپریلوں کی عمارت تھی‘ کیسے اچھے سرخ اینٹوں کے فرش اور گلاب اور گیندے کی کیاریاں تھیں‘ کیسے اچھے کلاس روم‘ کتنا عمدہ بڑا سا ہال اور کیسا گھنا وہ درخت تھا جس کے نیچے ہر صبح سارے لڑکے قطاریں بنا کر کھڑے ہوتے تھے‘  اس کے بعد چوتھی جماعت کے ٹیچر مسٹر سائمن صبح کے اخبار کی خاص خاص خبریں پڑھ کر سناتے تھے‘ وہ ہیڈ ماسٹر کے کمرے کی چھت کے اوپر لگا ہوا گھنٹہ جو سنا ہے کہ انجینئرنگ کالج کے لڑکوں نے ڈھالا تھا‘ وہ بڑا سا کھیلوں کا میدان جس میں سنا ہے کہ ایک بار کوئی ہوائی جہاز اترا تھا‘ دوسری جانب چار دیواری کے پچھواڑے وہ کچی سڑک جس پر دھول اڑاتی ہوئی بیل گاڑیاں گنے لادے گزرا کرتی تھیں‘ وہ سب میرے وجود سے چمٹاہوا تھا‘سکول نے ہر رات خواب میں آنا شروع کردیا‘ کبھی یوں نظر آتا کہ عمارت میں توسیع ہورہی ہے‘ کبھی یہ دکھائی دیتا کہ ایک بالائی منزل بھی بن گئی ہے‘پورے 35 سال بعد جب میں واپس گیا اور سکول کے زمانے کے دوستوں سے ملا تو کوئی گنجا ہوچکا تھا کسی کی کمر جھک گئی تھی اور چشمہ تو ہر ایک نے لگا رکھا تھا‘ جب اچھی طرح گلے مل چکے اور دوستوں کی بیویوں نے پوچھا کہ کیا کھائیے گا‘ اس وقت میرے جواب نے انہیں حیرت میں ڈال دیا‘ میں نے کہا کہ خدا کے لئے پہلے چل کر مجھے سکول دکھا دو‘ ایک بار دیکھ لوں تو شاید وہ خوابوں میں آنا چھوڑ دے‘جہاں ہم پیدل آتے جاتے تھے‘اس روز سب موٹر کاروں میں بھر کر وہاں گئے‘ ہم نے جاکر سکول دیکھا‘ کاش نہ دیکھا ہوتا‘ وہ ٹوٹ چکا تھا‘ پھوٹ چکا تھا‘ نہ توسیع ہوئی تھی نہ دوسری منزل بنی تھی‘ بلکہ ہال اور سائنس روم کی چھتیں گر چکی تھیں‘ جو نہیں گری تھیں حیران ہوں کہ انہیں کیا ہوا؟ ہاں مجھے یہ ہوا کہ وہ دن اور آج کا دن‘ پھر کبھی سکول خواب میں نہیں آیا‘ شاید ہم دونوں نے ایک دوسرے کا پیچھا چھوڑ دیا۔