بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت میں سنجیدگی اور بردباری تھی‘معروف براڈ کاسٹر آغا ناصر قائداعظم کے حوالے سے اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ مجھے قائداعظم کو دیکھنے کی خواہش تھی۔ پھر یوں ہوا کہ ایک روز میرے بھائی نے بتایا کہ کل قائداعظم سٹیٹ بینک کا افتتاح کرنے جا رہے ہیں‘انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جس سڑک سے گزرکر ان کی سواری جائیگی اسکا نام فرئیر روڈ ہے‘ اس سڑک پر انکے دوست کا فلیٹ ہے۔ ان کے فلیٹ کی بالکونی پر قائداعظم کو دیکھنے کیلئے بہت سے لوگ جمع ہو رہے ہیں‘ ہم بھی چلیں گے‘یہ جولائی1948 کی پہلی تاریخ تھی‘میں اپنے گھر والوں کیساتھ صبح سویرے ہی اٹھ کر اپنے بھائی کے دوست کے اپارٹمنٹ پہنچ گیا“ جب انکی سواری عین ہماری بالکونی کے نیچے پہنچی تو سب نے پرزور نعرے لگائے۔
میں نے بالکونی سے جھک کر انہیں دیکھا‘وہ کمزور دکھائی دے رہے تھے۔ قائداعظم کیساتھ محترمہ فاطمہ جناح بھی سفید لباس زیب تن کئے ہوئے تھیں‘ سواری گزر گئی اور نعرے لگاتے لوگ پیچھے رہ گئے مگر میرے لئے یہ بہت تھا...میں بہت خوش تھا۔ میری آرزو پوری ہوچکی تھی‘ میں نے اپنے قائد کو دیکھ لیا تھا‘ میں نے اپنے پاکستان کو دیکھ لیا تھا‘ اسی طرح ایک اور مقام پر آغا ناصر اپنی ملازمت کے آغازسے متعلق لکھتے ہیں کہ 1955ء میں بی اے کا امتحان دیا تو اسکے تھوڑے ہی عرصہ بعد ریڈیو پاکستان میں پروگرام پروڈیوسروں کی آسامیاں مشتہر ہوئیں میں نے بھی درخواست بھیج دی اور ایک ایک دن گن کو کر انٹرویو کا انتظار کرنے لگا کافی وقت گزر گیا کوئی جواب نہ آیا۔
میں انتہائی افسردہ اور ملول ہوا ذہن کی عجیب سی کیفیت تھی‘ کچھ غصہ کچھ غم اس روز سارا وقت چپ چاپ لیٹا رہا‘شام میں میرے دوست یونس رضوی آئے‘ ہر سال ان کی تقسیم کتب کی تقریب میں میزبانی کے فرائض میں انجام دیا کرتا تھا وہ بتانے آئے تھے کہ اگلے روز تقریب ہے جس میں مجھے اناؤنسر کے فرائض انجام دینے ہیں‘ میرا موڈ بے حد خراب تھا لہٰذا میں نے انکار کردیا وہ بضدرہے اور کہنے لگے کہ ہم نے دعوت نامے بھی چھپوالئے ہیں اس میں سٹیج سیکرٹری کے طور پر آپکا نام شامل ہے انہوں نے اپنی فائل سے ایک دعوت نامہ نکال کر مجھے دکھایا میں نے ان سے وعدہ کرلیا کہ میں ضرور آؤنگا۔
چار بجے شام بخاری صاحب ایک بڑی سیاہ رنگ کی شیورلیٹ کار میں تشریف لائے‘یونس رضوی نے بخاری صاحب سے میرا تعارف بطور خاص کرایا‘میری نشست بخاری صاحب کے بالکل ساتھ تھی انہوں نے بڑی شفقت سے پوچھا یہ بتائیں آپ کو ریڈیو کے پروگراموں میں کیا کیا خامیاں نظر آتی ہیں؟ میں پہلے ہی جلا بیٹھا تھا‘میں نے اپنا ساراغصہ بلا خوف اتار ڈالا‘بخاری صاحب کیلئے میری یہ باتیں بہت غیر متوقع تھیں‘وہ حیرت سے مجھے دیکھتے رہے جب میری بات ختم ہوئی تو بڑی خوشدلی سے کہا’برخودار! بہت خفا معلوم ہوتے ہو میں خاموش رہا۔
انہوں نے پھر کہا چلو میں تسلیم کرتا ہوں کہ جو کچھ تم نے کہا سب صحیح ہے اب یہ بتاؤ کہ ان کمزوریوں اور برائیوں کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے؟ میں نے جواب دیا آپ ان خرابیوں کو دور کرنا ہی نہیں چاہتے اس کیلئے نئے خون کی ضرورت ہے مگر آپ اس کیلئے تیار نہیں ہیں ’وہ کیسے؟ انہوں نے خشمگیں نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہوئے پوچھا میں نے بلا کسی جھجھک بڑے اعتماد سے جواب دیا مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے انٹرویو کیلئے کل صبح امیدواروں کو بلایا ہے لیکن مجھے اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ انٹرویو میں بلاتے ’بخاری صاحب کے چہرے پر کچھ ایسے تاثرات پیدا ہوئے جیسے انہوں نے میری شکایت تسلیم کرلی ہے میری پیٹھ پر ہلکی سے تھپکی دیتے ہوئے کہا ’صاحبزادے آپ بھی کل انٹرویو کیلئے آجائیں ہم آپ کو انٹرویو کریں گے یوں ریڈیو پاکستان میں میری ملازمت کی ابتدا ہوئی۔