واقعی زندگی مصروف ہو گئی ہے واقعی اس کے تقاضے بڑے ہو گئے ہیں لیکن جب انسان انسان کیساتھ رشتے میں داخل ہوتا ہے تو سب سے بڑا تحفہ اس کا وقت ہی ہوتا ہے۔جب آپ کسی کو وقت دیتے ہیں یا کوئی آپ کو وقت دیتا ہے اپنا لمحہ عطا کرتا ہے تو آپ حال میں ہوتے ہیں اس کا تعلق ماضی یا مستقبل سے نہیں ہوتا‘جب آپ معمولی کام کو اہمیت نہیں دیتے اور لمبا سا منصوبہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اپنا ذاتی اور انفرادی تو پھر آپ سے اگلا کام چلتا نہیں۔کافی عرصہ پہلے میں چین گیا تھا یہ اسوقت کی بات ہے جب چین نیا نیا آزاد ہوا تھا‘ہم سے وہ ایک سال بعد آزاد ہوا ان سے ہماری محبتیں بڑھ رہی تھیں اور ہم ان سے ملنے چلے گئے‘افریقہ اور پاکستان کے کچھ رائٹر چینی حکام سے ملے‘ایک گاؤں میں بہت دور پہاڑوں کی اوٹ میں کچھ عورتیں بھٹی میں دانے بھون رہی تھیں‘ دھواں نکل رہا تھا‘ میرے ساتھ شوکت صدیقی تھے۔
کہنے لگے یہ عورتیں ہماری طرح سے ہی دانے بھون رہی ہیں جب ہم ان کے پاس پہنچے تو دو عورتیں دھڑا دھڑ پھوس، لکڑی جو کچھ ملتا تھا بھٹی میں جھونک رہی تھیں اور کڑاہے میں کوئی لیکوڈ (مائع) سا تیار کر رہی تھیں ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ یہ کیا کر رہی ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم نے سٹیل بنانے کا ایک طریقہ اختیار کیا ہے کہ کس طرح سے سندور ڈال کرلوہے کو گرم کرنا ہے۔ یہ عورتیں صبح اپنے کام پر لگ جاتیں اور شام تک محنت اور جان ماری کیساتھ سٹیل کا ایک ”ڈلا“یعنی پانچ چھ سات آٹھ سیر سٹیل تیار کر لیتیں۔ ٹرک والا آتا اور ان سے آکر لے جاتا۔انہوں نے بتایا کہ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے ہم اس سٹیل کے بدلے لے لیتے ہیں میں اب بھی کبھی جب اس بات کو سوچتا ہوں کہ ان کی کیا ہمت تھی ان کو کس نے ایسے بتا دیا کہ یہ کام ہم کریں گی تو ملک کی کمی پوری ہوگی چھوٹا کام بہت بڑا کام ہوتا ہے اس کو چھوڑ انہیں جا سکتا جو کوئی اسے انفرادی یا اجتماعی طور پر چھوڑ دیتا ہے مشکل میں پڑ جاتا ہے۔
جب ہم سمن آباد میں رہتے تھے یہ لاہور میں ایک جگہ ہے وہ ان دنوں نیا نیا آباد ہورہا تھا اچھا پوش علاقہ تھا وہاں ایک بی بی بہت خوبصورت‘ماڈرن قسم کی بیوہ عورت آکر رہنے لگی ایک تو وہ انتہائی اعلیٰ درجے کے خوبصورت کپڑے پہنتی تھی‘پھر اسکی یہ خرابی تھی کہ وہ بڑی خوبصورت تھی تیسری اس میں خرابی یہ تھی کہ اسکے گھر کے آگے سے گزرو تو خوشبو کی لپٹیں آتی تھی اسکے جو دو بچے تھے‘ وہ گھر سے باہر بھاگے پھرتے تھے اس خاتون کو کچھ عجیب وغریب قسم کے مرد بھی ملنے آتے تھے گھر کی گاڑی کا نمبر تو روز دیکھ دیکھ کر آپ جان جاتے ہیں لیکن اس کے گھر آئے روز مختلف نمبروں والی گاڑیاں آتی تھیں ظاہر ہے اس صورتحال میں ہم جیسے بھلے آدمی اس سے کوئی اچھا نتیجہ نہیں اخذ کرسکتے اسکے بارے میں ہمارا ایسا ہی رویہ تھا جیسا آپکو جب میں یہ کہانی سنارہا ہوں تو آپکے دل میں لامحالہ اس جیسے ہی خیالات آتے ہونگے‘ایک روز وہ سبزی کی دکان پر گرگئی لوگوں نے اسکے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے تو اسے ہوش آیا اور وہ گھر گئی۔
تین دن کے بعد وہ فوت ہوگئی‘حالانکہ اچھی صحت مند دکھائی پڑتی تھی جو بندے اسکے ہاں آتے تھے انہوں نے ہی اس کا کفن دفن کا سامان کیا بعد میں پتہ چلا کہ انکے ہاں آنیوالا ایک بندہ انکا فیملی ڈاکٹر تھا اس عورت کو ایک ایسی بیماری تھی جسکا کوئی علاج نہیں تھا اس کو ایسی خوفناک صورت لاحق تھی کہ اسکے بدن سے بدبو بھی آتی رہتی تھی‘اسے خوشبو کیلئے سپرے کرنا پڑتا تھا‘تاکہ کسی قریب کھڑے کو تکلیف نہ ہو‘ دوسرا اس کے گھر آنیوالا اس کا وکیل تھا‘جو اسکے حقوق کی نگہبانی کرتا تھا تیسرا اسکے خاوند کا چھوٹا بھائی تھا‘ جو اپنی بھابی کو ملنے آتا تھا ہم نے ایسے ہی اسکے بارے میں طرح طرح کے اندازے لگالیے اور نتائج اخذ کرلئے اور اس نیک پاکدامن عورت کو جب دورہ پڑتا تھا وہ بچوں کو دھکے مار کر باہر نکال دیتی تھی اور تڑپنے کیلئے وہ اپنے دروازے بند کرلیتی تھی۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)