الفاظ سے کھیلنے اور قارئین کو الفاظ کے جادو سے اپنی گرفت میں لینے کا فن اگر کسی مصنف کا کمال ہے تو بلاشبہ یہ وہ ملکہ ہے کہ جس کے ذریعے کوئی بھی قلمکار بلند ترین مقام حاصل کر لیتا ہے۔
زندگی کے تجربات اور مشاہدات کو دلچسپ انداز میں پیش کرنے کا فن مشہور مصنف اور ادیب اشفاق احمد بخوبی جانتے تھے، اپنی نشری تقاریر میں ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ ہم زندگی میں اتنے سیانے محتاط‘عقل مند اور اتنے ’ڈراکل‘ ہوگئے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ شاید اس میں کوئی کوتاہی یا غلطی ہوجائے گی اور جب میں اس بات کو ذرا وسیع کرکے دیکھتا ہوں اور اپنی زندگی کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ ہم صرف احتیاط کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں اور اپنی زندگی کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ ہم صرف احتیاط کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں اور جب اس کو ذرا اور وسیع تر دائرے میں پھیلاتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ میں اور میرے معاشرے کے لوگ سارے کے سارے ضرورت سے زیادہ خوفزدہ ہوگئے ہیں اور انہیں ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں ہم سے کوئی کوتاہی نہ ہوجائے ہم آج کل نقصان کی طرف مائل ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتے اسی لئے اگر ہم کو کوہ پیمائی کرنا پڑے ہمالیہ کی چوٹی سرکرنی پڑے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ تو بڑا ’رسکی‘ کام ہے رسک کا ہے کو لینا‘ بہتر یہی ہے کہ آرام سے رہیں اور چار پیسے بنانے کے لئے کوئی پروگرام بنائیں چار پیسے بنانا اور اپنی مالی زندگی کو مزید مستحکم کرنا کچھ ضرورت سے زیادہ ہوگیا ہے ہم تعلیم اس لئے حاصل کرتے ہیں کہ یہ ہم کو فائدہ دے گی یا ہم اس سے پیسے حاصل کریں گے اور تعلیم کا تعلق ہم نوکری کے ساتھ جوڑتے ہیں حالانکہ علم اور نوکری کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے اگر ایمانداری کے ساتھ دیکھا جائے تو پتہ یہ چلتا ہے کہ علم حاصل کرنا تو ایک اندر کی خوبصورتی ہے جیسے آپ باہر کی خوبصورتی کے لئے پاؤڈر لگاتے ہیں اور میک اپ کرتے ہیں لڑکیاں لپ اسٹک اور کاجل لگاتی ہیں اسی طرح انسان اپنی روح کو بالیدگی عطا کرنے کے لئے علم حاصل کرتا ہے لیکن ہم نے علم کو نوکری سے وابستہ کردیا ہے آئے روز اخباروں میں چھپتا ہے کہ جی تین ہزار نوجوان ایم بی اے ہوگئے ہیں انہیں نوکری نہیں ملتی۔ ایک اور واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے اشفاق احمد رقم طراز ہیں کہ جب شارجہ میں میانداد نے چھکالگایا تھا‘میں شادمان کے علاقے میں جا رہا تھا کہ میری گاڑی میں خرابی پیدا ہو گئی‘میں نے نیچے اتر کر دیکھا تو اس کو ٹھیک کرنا میرے بس کی بات نہیں تھی‘ایک خاتون گھر سے باہر آئیں‘انہوں نے آ کر دیکھا اور پھر کہا کہ یہ آپ سے ٹھیک نہیں ہوگی‘ میں نے اس سے کہا کہ میں کہیں جلدی جانا چاہتا ہوں‘اس نے کہا کہ آپ گاڑی کو یہاں چھوڑ دیں‘ میرا بیٹا انجینئر ہے وہ اسے دیکھ لے گا‘ میں بلاتی ہوں اس لڑکے نے آکر کہا کہ انکل آپ جا کر اندر بیٹھیں میں دیکھتا ہوں اور وہ کام کرنے لگا‘میں انکے گھر میں جا کر بیٹھ گیا‘ وہاں ٹی وی لگا ہوا تھا اس دوران میں میانداد آیا اس نے چھکا لگایا اور پاکستان جیت گیا اس وقت پوری قوم ٹی وی اور ریڈیو سیٹوں سے چمٹی ہوئی تھی اس لڑکے کی ماں نے مجھے آ کر کہا کہ گاڑی ٹھیک ہو گئی‘میں نے اس لڑکے سے آ کر کہا کہ یار تم نے میچ نہیں دیکھا۔وہ کہنے لگاکوئی بات نہیں۔ آپ نے دیکھ لیا تو میں نے دیکھ لیا۔ آپکی دقت ختم ہو گئی خواتین و حضرات! اس نے یہ چھوٹی سی بات کہہ کر مجھے خرید لیا۔ بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات ہے لیکن اس نے مجھے ایسی چیز عطا کی جس کا میں آج تک دینے دار ہوں۔ہم اپنی والدہ کو ”پھر نتو“ کہتے تھے۔ وہ آزاد منش خاتون تھیں اور عموماً اپنے کمرے میں نہیں رہتی تھی بس ادھر ادھر پھرتی رہتی تھیں‘اتنی پڑھی لکھی بھی نہیں تھیں‘ جب بھی دیکھیں کمرے کا چکرلگا کے باورچی خانے میں پہنچتی ہوتیں‘انہیں جہاں بھی چھوڑ کر آتے تھوڑی دیر کے بعد وہ کچن میں ”کڑھم“ کرکے موجود ہوتیں۔ ایک بار دوپہر کے وقت وہ باورچی خانے میں کھڑی تھیں اور سب سوئے ہوئے تھے‘میں نے پوچھا جی کیا کر رہی ہیں تو وہ کہنے لگیں کہ بندر والا مداری آیا تھا وہ بھوکا تھا اس کیلئے پکوڑے تل رہی ہوں۔ میری اماں کا سارا سینٹر باورچی خانہ تھا وہ بھی کہتیں کہ میری زندگی کا مرکز ہی یہ ہے اور مجھے لوگوں کوکچھ عطا کرکے خوشی ہوتی ہے۔اس زمانے میں شاید ساری عورتیں اس نظریے کی قائل تھیں۔اگر آپ اپنی زندگی کو کبھی غور سے دیکھیں اور چھوٹی چمٹی کے ساتھ زندگی کے واقعات چنتے رہیں تو آپ کو بے شمار چیزیں ایسی نظر آئیں گی جو ایسے ہی آپ کی نگاہ سے اوجھل ہو گئی ہیں لیکن وہ بڑی قیمتی چیزیں ہیں۔)اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)