مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد اپنی نشری تقاریر میں زندگی کے تجربات اورمشاہدات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ واقعی زندگی مصروف ہوگئی ہے‘واقعی اس کے تقاضے بڑے ہوگئے ہیں‘لیکن جب انسان‘ انسان کے ساتھ رشتے میں داخل ہوتا ہے تو سب سے بڑا تحفہ اس کا وقت ہی ہوتا ہے جب آپ کسی کو وقت دیتے ہیں یا کوئی آپ کو وقت دیتا ہے اپنا لمحہ عطا کرتا ہے تو آپ حال میں ہوتے ہیں اس کا تعلق ماضی یا مستقبل سے نہیں ہوتا لیکن کبھی کبھی یہ بات میں تفریح کے طور پر کرتا ہوں تاکہ اپنے استاد کو بہت داد دے سکوں اور ان کا مان بڑھانے کے لئے اور ان کے سامنے عاجزی سے کھڑے ہونے کے لئے کہتا ہوں جس زمانے میں ہمارے استاد پطرس بخاری ہمیں گورنمنٹ کالج چھوڑ کر یواین او میں چلے گئے تھے اور وہ نیویارک ہی رہتے تھے جس علاقے یا فلیٹ میں وہ تھے وہاں استاد مکرم بتاتے ہیں کہ رات کے دوبجے مجھے فون آیا اور بڑے غصے کی آواز میں ایک خاتون بول رہی تھیں وہ کہہ رہی تھیں کہ آپ کا کتا مسلسل آدھ گھنٹے سے بھونک رہا ہے اس نے ہماری زندگی عذاب میں ڈال دی ہے‘ میرے بچے اور میرا شوہر بے چین ہوکر چار پائی پر بیٹھ گئے ہیں اور اس کی آواز بند نہیں ہوتی‘اس پر بخاری صاحب نے کہا کہ میں بہت شرمندہ ہوں اور آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ میرا کتا اس طرح سے Behave کررہا ہے لیکن میں کیا کروں میں مجبور ہوں
اس پر اس خاتون نے غصے میں آکر فون بند کردیا اگلے ہی روز بخاری صاحب نے رات ہی کے دوبجے ٹیلیفون کرکے اس خاتون کو جگایا اور کہا کہ محترمہ!میرے پاس کوئی کتا نہیں ہے‘ مجھے کتوں سے شدید نفرت ہے کل رات جو کتا بھونکا تھا وہ میرا نہیں تھا اب دیکھئے کہ انہوں نے کس خوبصورتی سے حال کو مستقبل سے جوڑا! یا میں یہ کہوں گا کہ ماضی کو مستقبل کیساتھ جوڑا! یہ بخاری صاحب کا ہی خاصا تھا۔ایک اور مقام پر اشفاق احمدانسانی جذبات اور خاص کر والدین کے بچوں کے ساتھ تعلقات اور ان کی تربیت کے حوالے سے خلوص اور خواہشات کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ اور یہ اشفاق احمد کا خاصہ ہے کہ انسانی جذبات اور احساساسات کا گہرائی کیساتھ بھرپورانداز میں عکاسی کرتے ہیں۔ اپنے بچپن کے واقعات کے حوالے سے ایک مقام پر اپنے والدین کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ماں خدا کی نعمت ہے اور اسکے پیار کا انداز سب سے الگ اور نرالا ہوتاہے بچپن میں ایک بار بادوباراں کا سخت طوفان تھا اور جب اس میں بجلی شدت کے ساتھ کڑکی تو میں خوفزدہ ہوگیا ڈر کے مارے تھر تھر کانپ رہا تھا میری ماں نے میرے اوپر کمبل ڈالا اور مجھے گود میں بٹھالیا‘تو محسوس ہوا گویا میں امان میں آگیا ہوں‘ میں ماں کے سینے کیساتھ لگ کر سوگیا پھر مجھے پتا نہیں چلا کہ بجلی کس قدر چمکتی رہی‘ یا نہیں یہ ایک بالکل چھوٹا ساو اقعہ ہے اور اسکے اندر پوری دنیا پوشیدہ ہے یہ ماں کا فعل تھا جو ایک چھوٹے سے بچے کے لئے‘جو خوفزدہ ہوگیا ہے میں جب نوسال کا ہوا تو میرے دل میں ایک عجیب خیال پیدا ہوا کہ سرکس میں بھرتی ہوجاؤں اور کھیل پیش کروں‘کیونکہ ہمارے قصبے میں ایک بہت بڑا میلا لگتا تھا
تیرہ‘ چودہ‘ پندرہ جنوری کو اور اس میں بڑے بڑے سرکس والے آتے تھے‘ مجھے وہ سرکس دیکھنے کا موقع ملاجس سے میں بہت متاثر ہوا جب میں نے اپنے گھر میں اپنی یہ خواہش بیان کی کہ میں سرکس میں اپنے کمالات دکھاؤں گا تو میری نانی ’پھا‘ کرکے ہنسی اور کہنے لگیں‘ ذرا شکل تو دیکھو! یہ سرکس میں کام کریگا میری ماں نے بھی کہا‘دفع کرتو بڑا ہو کر ڈپٹی کمشنر بنے گا تو نے سرکس میں بھرتی ہوکرکیا کرنا ہے اس پر میرا دل بڑا بجھ سا گیا میرے والد سن رہے تھے انہوں نے کہا کہ نہیں‘کیوں نہیں؟ اگر اسکی صلاحیت ہے تو اسے بالکل سرکس میں ہونا چاہئے تب میں بہت خوش ہوا‘انہوں نے صرف مجھے اجازت ہی نہیں دی بلکہ ایک ڈرم جو ہوتا ہے تارکول کا اس کو لال‘نیلا اور پیلا پینٹ کرکے بھی لے آئے اور کہنے لگے اس پر چڑھ کر آپ ڈرم کو آگے پیچھے رول کیا کریں اس پر آپ کھیل کرینگے تو سرکس کے جانباز کھلاڑی بن سکیں گے میں نے کہا منظور ہے چنانچہ میں اس ڈرم پر پریکٹس کرتا رہا میں نے اس پراس قدر اور اچھی پریکٹس کی کہ میں اس ڈرم کو اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق کہیں بھی لے جا سکتا تھا پھر میں نے اس ڈرم کے اوپر چڑھ کر ہاتھ میں تین گیندیں ہوا میں اچھا لنے کی پریکٹس کی وہاں میرا ایک دوست تھا‘محمد رمضان اس کو بھی میں نے پریکٹس میں شامل کرلیا وہ اچھے چھریرے بدن کا تھا وہ مجھ سے بھی بہتر کام کرنے لگا بجائے گیندوں کے وہ تین چھریاں لیکر ہوا میں اچھال سکتا تھا ہم دونوں ڈرم پر چڑھ کر اپنا یہ سرکس لگاتے ایک ہماری بکری تھی اس کو بھی میں نے ٹرینڈ کیا وہ بکری بھی ڈرم پر آسانی سے چڑھ جاتی ہم یہ سرکس کرتے اور میرے اباجی ایک روپے کا ٹکٹ خرید کرتماشا دیکھتے ہمارا ایک ہی تماشائی ہوتا تھا۔