سری لنکا کے معاشی ماہرین نے ایک سال پہلے حکومت کو پٹرول کی قیمت بڑھانے کا مشورہ دیا تھا اسوقت ملک کے کرنٹ اکا ؤنٹ یا جاریہ اخراجات کے خسارے میں اضافہ ہو رہا تھا حکومت کو کھاد‘ پٹرول‘ ڈیزل‘ کوکنگ آئل اور ادویات کی درآمد میں دشواری درپیش تھی کابینہ کی ایک میٹنگ میں جب صدر گوتا بایا راجا پکسا کی توجہ اسطرف دلائی گئی تو انہوں نے اسکی اجا زت دے دی مگر انکے بھائی باسیل راجا پکسا جو کہ وزیر خزانہ تھے نے کہا کہ اس اضافے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے عوام پر بوجھ پڑیگا اور بے چینی میں اضافہ ہو گا اس مسئلے کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ایک مافیا ملک کے بینکنگ سسٹم سے ڈالرنکال کر باہر بھیج رہا ہے اور وہ دو ہفتے میں اسے نکیل ڈال دیں گے پھر یہ بات آئی گئی ہوگئی اور کسی نے اسکی طرف توجہ نہ دی اس واقعے کے ایک سال بعد سری لنکا معاشی بدحالی کی دلدل میں دھنس چکا ہے حکومت کے پاس قرضوں کی ادائیگی کیلئے رقم نہیں ہے صدر گوتا بایا کے چار بھائی جو اہم وزارتوں پر براجمان تھے اور انکے چھ بھانجے اور بھتیجے جو اہم عہدوں پر فائز تھے سب استعفے دیکر ملک کے اندر محفوظ مقامات پر چھپے ہوئے ہیں مظاہرین نے انکے گھروں کو نذر آتش کر دیا ہے حکمران خاندان کے سربراہ مہندا راجا پکسا جو وزیر اعظم تھے نے چودہ مئی کو استعفیٰ دیا انہیں سکیورٹی فورسز نے بمشکل تمام گھر سے نکال کر ایک فوجی بیس تک پہنچایا چند روز پہلے پٹرول مہیا کرنیوالی کمپنی Ceylon Petroleum Corporation نے اعلان کیاکہ اٹھارہ مئی کو پٹرول کی سپلائی نہ ہو سکے گی اسلئے لوگ پٹرول سٹیشنوں پرقطاریں نہ بنائیں۔لوگ گذشتہ چھ ہفتوں سے کئی کلومیٹر لمبی قطاریں بنا کر اور کئی گھنٹے انتظار کر کے پٹرول حاصل کر رہے تھے گیس سپلائی کرنے والی کمپنی Litro Gas Lanka نے اعلان کیا ہے
کہ وہ اگلے تین دنوں تک گیس مہیا نہ کر سکے گی ان دونوں کمپنیوں نے عوام کو یقین دلایا ہے کہ چند دنوں میں ادائیگیاں کر کے پٹرول اور گیس مہیا کر دئے جائیں گے اس ہمہ گیر بحران کیوجہ سے ملک میں آٹا‘ چینی‘ گھی اور ادویات کی بھی قلت ہے ایک بڑی اکثریت حکمران خاندان کو اس تباہی کا ذمہ دار ٹھرا رہی ہے۔ راجا پکسا خاندان کو ایک سال پہلے تک سری لنکا کے لوگ اپنا نجات دہندہ مانتے تھے اسکی وجہ یہ تھی کہ 2009 تک ملک ایک خطرناک سول وار میں جکڑا ہوا تھا اسوقت بھی مہندا راجا پکسا ملک کے وزیر اعظم تھے اور انکے بھائی گوتا بایا ڈیفنس منسٹر تھے ان دونوں بھائیوں کو ایک طویل خانہ جنگی ختم کرنے کا کریڈٹ دیا جاتا تھا اس فتح کے رتھ پر سوار ہو کر احساس تفاخر سے سرشار یہ خاندان بڑی آسانی سے چند روز پہلے تک ملک پر حکومت کرتا رہا بحر ہند پر واقع بائیس ملین لوگوں کے اس جزیرہ نما ملک کو کچھ عرصہ پہلے تک خوشحال سمجھا جاتا تھا دنیا بھر سے سیاح اسکے خوبصورت مقامات سے لطف اندوز ہونے کیلئے آتے تھے اسکی چائے زر مبادلہ کمانے کا ایک بڑا ذریعہ تھی فوج خانہ جنگی میں کئی سال تک الجھی رہی مگر معیشت ترقی کر رہی تھی پھر 2019 میں تواتر سے ہونیوالے خود کش دھماکوں نے پانسہ پلٹ دیا اسکے بعد غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں کمی ہونے لگی رہی سہی کثر کورونا وائرس نے پوری کر دی ماہرین کے مطابق اسوقت اگر درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافے کی تدابیر کی جاتیں تو معیشت کو تباہی سے بچایا جا سکتا تھا مگر 2019ہی میں الیکشن جیتنے کیلئے راجا پکسا خاندان نے ٹیکسوں میں کمی کر دی قومی آمدن کی اس کمی کو پورا کرنے کیلئے حکومت نے دھڑا دھڑ نوٹ چھاپنے شروع کر دئے اسکے ساتھ ہی چین اور انڈیا سے قرض لینے میں تیزی آگئی اس زبوں حالی کو دیکھتے ہوے معاشی ماہرین نے آئی ایم ایف سے امداد لینے کا مشورہ دیا مگر قرض دینے والے ممالک کی ناراضگی سے بچنے کیلئے یہ مشکل فیصلہ نہ کیا گیا
اب مارچ میں یہ دروازہ کھٹکھٹایا گیا مگر وہاں سے ابھی تک کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا ایک خوشحال ملک کی اس معاشی تباہی کی ذمہ داری راجا پکسا خاندان پر ڈالنے والوں کا کہنا ہے کہ سابقہ وزیر خزانہ باسیل راجا پکسا ہٹ دھرم ہونیکے علاوہ نااہل بھی تھے انکے بارے میں مشہور تھا کہ He controlled everything and he knew nothing باسیل کے بڑے بھائی گوتا بایا نے سیاسی مخالفین اورصحافیوں کی ایک بڑی تعداد کو طویل عرصے تک جیلوں میں بند رکھا کہنے کو سری لنکا ایک جمہوریت تھی مگر حکمران خاندان پارلیمنٹ کو رتی بھر اہمیت نہ دیتا تھا پانچ بھائی قومی امور سے متعلق تمام فیصلے خود ہی کرتے تھے۔آجکل پاکستان اور سری لنکا کے سیاسی اور معاشی حالات میں مماثلت کی باتیں ہو رہی ہیں چند روز پہلے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اس تاثر کی سختی سے تردید کی انکی رائے ایک حد تک درست ہو سکتی ہے پاکستان رقبے اور آبادی کے لحاظ سے سری لنکا کے مقابلے میں کئی گنا بڑا ملک ہے ایک نیوکلیئر پاور ہونے کے علاوہ اسکی تزویراتی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے مگر دوسری طرف اس کے معاشی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ملک تیزی سے ڈیفالٹ کی طرف بڑھ رہا ہے اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی ریفارمز نے سولہ مئی کو اکتالیس صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی ہے اسمیں لکھا ہے کہ پاکستان پر 122 ارب ڈالر کا قرض ہے جسکی ادائیگی جاری رکھنے کیلئے حکومت کو جلد چند بڑے اور مشکل فیصلے کرنا ہوں گے پاکستان اور سری لنکا کے معاشی حالات کا اہم ترین سبق یہ ہے کہ کوئی بھی ترقی پذیر ملک سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا قومی امور میں غیر ذمہ دارانہ رویہ انہیں یکھتے ہی دیکھتے معاشی تباہی سے دوچار کر دیتا ہے ترقی اور خوشحالی کیلئے سیاسی معاملات کا آئین کے مطابق چلتے رہنا اور ملک کے اندر امن و امان کا ہونا نہایت ضروری ہے۔