ناقابل فراموش واقعات

وطن عزیز کی سیاسی تاریخ میں بعض واقعات ایسے ہیں جو ریکارڈ کا حصہ بن چکے ہیں ان ہی میں سے ایک جلسے کی روداد میں معروف براڈ کاسٹر آغاناصر لکھتے ہیں کہ1951ء میں نوابزادہ لیاقت علی خان جب خصوصی مہمان کے طور پر امریکہ گئے تو اس میں ہر طرح کی تنقید کی گئی جس میں یہ بھی شامل تھا کہ انہوں نے امریکہ کے دورے کے لئے دو سوٹ سلوائے جن کی ادائیگی حکومت کے خزانے سے کی گئی تھی۔ 14 اگست1951ء والے جلسے میں‘ میں بھی اپنے بہت سے کالج کے ساتھیوں کے ساتھ شریک تھا۔وزیر اعظم نے بالکل آغاز ہی میں اپنے اوپر کی جانے والی تنقید کا ذکر کیا اور اس الزام کی پر ز ور تردید کی کہ انہوں نے سرکای خرچ پر امریکہ جانے کے لئے سوٹ سلوائے ہیں۔ انہوں نے کہا کراچی میں میرا ایک درزی ہے جس کا نام عزیز ٹیلر ہے اور جو ہندوستان کے زمانے سے میرے کپڑے سیتا چلا آ رہا ہے اسی نے میرے سوٹ سیئے تھے ہمیشہ کی طرح ان سوٹوں کے اخراجات کی ادائیگی بھی میں نے اپنی جیب سے کی ہے۔پھر ذرا ٹھہر کر انہوں نے جلسہ گاہ کی طرف دیکھا اور باآواز بلند عزیز ٹیلر کا نام پکارا۔ ذرا سی دیر میں ایک چھوٹے قد کا آدمی سٹیج پر آیا ٗوزیر اعظم نے اس سے کہا کہ میری بات کی تصدیق کرو ٗعزیز نے مائیکرو فون کے سامنے آکر اپنی کمزور سی آواز میں کہا”میں عزیز ٹیلر ہوں ٗ یہاں پیراڈائز سینما کے سامنے میری دکان ہے ٗ میں انڈیا کے زمانے سے نواب صاحب کے کپڑے سیتا آیا ہوں ٗ اس بار بھی یعنی امریکہ جانے سے پہلے انہوں نے مجھ سے دو سوٹ سلوائے ٗ جس میں سے ایک کی مکمل ادائیگی نواب صاحب نے کردی ہے اور دوسرے کے ابھی آدھے پیسے ملے ہیں ٗہمارے ساتھ نواب صاحب کا اسی طرح کا حساب ہے“۔اس زمانے میں اس طرح کی باتیں معیوب نہیں سمجھی جاتی تھیں ٗ لوگوں نے بے تحاشا تالیاں بجائیں اور لیاقت علی خان زندہ باد کے نعرے لگائے۔

ایک اور مقام پر آغا ناصر اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ایک بار کہ جب کسی میٹنگ میں صدر ایوب نے کوئی تقریر کی اور میں نے ایڈٹ کرتے وقت اس کے وہ فقرے نکال دیئے جو انہوں نے اس سے ایک روز پہلے کسی اور تقریر میں بھی کہے تھے‘ مجھے اپنے ریجنل ڈائریکٹر کی طرف سے پیغام ملا کہ صدر صاحب نے اس پر خفگی کا اظہار کیا ہے۔ اگلے روز مجھے ان کی کسی تقریب میں ریکارڈنگ کے لئے جانا تھا انہوں نے تقریر کے بعد مجھے بلایا اور کہا پرسوں آپ نے میری تقریر کے وہ اہم حصے نکال دیئے جو بڑے ضروری تھے؟ میں نے کہا۔سر تقریر لمبی تھی اور مجھے 29منٹ تیس سیکنڈ کی بنانا تھی میں نے وہ حصہ اس لئے نکال دیا کہ ایک روز پہلے آپ کی ایک تقریر میں شامل کرچکا تھا انہیں میری بات سمجھ میں آگئی مسکرائے اور بولے یہ تمہارا مسئلہ ہے کہ تقریر کو وقت کی قید میں کس طرح لاتے ہو مگر میں نے ایک بات اگلے دن پھر دہرائی ہے تو اس کی کوئی ضرورت رہ گئی ہوگی وہ حصہ تم کو نکالنا نہیں چاہئے تھا میں نے معذرت کی اور کہا شاید مجھ سے لکھ کر اس سلسلہ میں باز پرس کی جارہی ہے میں اپنی اس غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے معافی مانگ لوں گا ان کے چہرے پر کچھ ناپسندیدی کے تاثرات آئے جیسے ان کو یہ بات اچھی نہ لگی ہو کہ مجھ سے لکھ کر کیوں باز پرس کی جارہی ہے انہوں نے میرا کاندھا تھپتھپایا اور بڑے نرم لہجے میں کہا ’تم اچھا کام کرنے والے ایک نوجوان ہو میں تمہیں پسند کرتا ہوں اگر تم سے لکھ کر پوچھا جائے تو صرف یہ جواب دینا کہ میری اس سلسلہ میں صدر صاحب سے بات ہوگئی میں ان کے اس رویہ پر بے حد خوش ہوا اور میرا اعتماد اپنے آپ پر پہلے سے زیادہ ہی بڑھ گیا۔