مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد اپنی نشری تقاریر میں کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم بیٹھے تھے‘میرا کزن جو میرا ہم عمر ہی ہے‘ اس کا نام اکرام ہے‘ وہ اپنے پہلے بچے کی پیدائش کا ذکر کررہاتھا‘وہ پتوکی میں بڑے زمیندار ہیں‘ وہاں انکی زمینیں ہیں‘وہ بتانے لگے کہ جب ان کے بچے کی پیدائش کا وقت آیا تو تب شام یا رات کا وقت تھا اور وہ تھوڑے پریشان ہوئے‘میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ گاڑی نکالیں ہمیں لاہور جانا چاہئے اور آدھی رات کو لاہور پہنچ گئے‘ہم سب گھر کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے‘ وہاں میری چھوٹی بہن بھی موجود تھی‘اس نے کہا کہ اکرام بھائی اگر خدانخواستہ رات کو سفر کے دوران کوئی پیچیدگی ہوجاتی تب آپ کیا کرتے‘تو وہ کہنے لگے کہ اگر کوئی پیچیدگی پیدا ہوجاتی تو میں فوراً ریحانہ (بیوی)کو ڈرائیونگ سیٹ سے اٹھا کر پیچھے لٹا دیتا اور خود گاڑی چلانے لگ جاتا‘اس سے یہ پتہ چلا کہ اس نے ساری رات ڈرائیونگ بھی اپنی بیوی ہی سے کرائی ہے اور خود مزے سے لیٹے رہے ہیں۔
آپ نے گھروں میں اپنے بھائی‘ بڑوں کو دیکھا ہوگا کہ وہ کسی کام میں دخل نہیں دیتے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید دخل نہ دینے سے کچھ فائدہ پہنچتا ہے‘ حالانکہ اس سے ہرگز ہرگز کوئی فائدہ نہیں پہنچتا‘حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں جتنے بھی تاجر اور دکاندار ہیں مزے سے تجارت کررہے ہیں‘ ان کی چھوٹی سی دنیا ہے اور وہ اسی تجارت کے اندر گھومن گھیری انداز سے چکر کاٹ رہے ہیں‘ باہر لوگ کیسے آبادہیں‘ان کی کیسی مشکلات ہیں ان کو کیا کرنا چاہئے‘وہ اس بارے بالکل کچھ نہیں جانتے‘وہ سارے کے سارے اپنی اپنی غاروں میں بیٹھے ہوئے ہیں‘ان کا اپنی ہی ذات سے واسطہ ہے‘ ہمارے کیا تقاضے ہیں‘ہم ان سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ ہم سے بات نہیں کرنا چاہتے‘ ہمارے لاہور میں ایک بہت بڑا برانڈرتھ روڈ ہے‘ وہاں بڑے امیر لوگ رہتے ہیں۔
کراچی میں بڑے امیرترین لوگ ہیں‘ فیصل آباد کی سوتر منڈی دنیا کا امیر ترین علاقہ ہے لیکن جتنے بھی لوگ وہاں بیٹھے ہیں‘ ہیں تو تو وہ ہمارے درمیان اور رہتے بھی اسی دنیا میں ہیں‘گفتگو ہماری جیسی کرتے ہیں‘کھانا بھی ہمارے جیسا کھاتے ہیں لیکن وہ ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتے‘جب ہم پلٹ کر اپنے اس دکھ کا اظہار اپنی ذات سے کرتے ہیں توپتہ چلتا ہے کہ ہم بھی ایسے ناقد ہیں‘بس تنقید کرنے پرمجبور ہیں اور ہمیں بھی کچھ پتہ نہیں چلتا‘ کس کو ہماری ضرورت ہے‘ ہم کس کی کس طرح سے مدد کرسکتے ہیں‘ہمارے ملک کے کسی باشندے کو کیا تکلیف ہے۔
ہمیں معلوم نہیں‘ ہم بھی بھائی اکرام جیسے ہی ہیں اور سوچتے ہیں کہ اگر تکلیف ہوگی تو میں موٹر چلالوں گا ورنہ بیوی گاڑی چلاتی رہے۔ایک اور مقام پررقم طراز ہے کہ آغا حشر کا جب طوطی بولتا تھا تو فلم والے ان کے پیچھے پیچھے بھاگے پھرتے تھے کہ آپ فلم کے لئے کچھ لکھیں لیکن وہ اپنی تھیٹر کی زندگی اور اس تصور میں اتنے مگن تھے کہ وہ فلم والوں کو گھاس نہیں ڈالتے تھے مختار بیگم بتاتی ہیں کہ انہیں کپڑے سلوانے اور پہننے کا بڑا شوق تھا ممبئی کا ایک بڑا معروف درزی تھا آغا حشر نے اپنا سوٹ سلنے کیلئے اسے دیا اور اسے کہا کہ آپ مجھے ایک تاریخ بتا دیں تاکہ میں اپنا سوٹ آکر لے جاؤں اور جب مقررہ تاریخ پر وہ اپنا سوٹ لینے آئے تو درزی نے کہا کہ جی میں ابھی تک سوٹ کی کٹنگ نہیں کرسکا۔
اس پر آغاصاحب بہت ناراض ہوئے اور واپس آگئے اس درزی نے انہیں عرض کی میں آئندہ ہفتہ کو آپ کا سوٹ تیار کرکے رکھوں گا آغاصاحب ہفتے کو گئے تو بھی سوٹ تیار نہ تھا‘ درزی نے کہا کہ سر آپ اتوار کو آجائیے گا میں چھٹی کے دن بھی آپ کی خاطر دکان کھول لوں گا جب وہ سنڈے کو گئے تو تب بھی سوٹ تیار نہیں تھا اس طرح وہ آتے اور جاتے رہے جب آغاحشر نے ٹیلرماسٹر کی دکان پر جانا چھوڑ دیا تو دہ درزی سوٹ سی کر اور اسے پیک کرکے خدمت میں حاضر ہوگیا آغا صاحب نے کہا کہ تمہارے پیسے تمہیں پہنچ جائیں گے اور ا س طرح سے مقروض اور قرض خواہ کا رشتہ شروع ہوگیا ایک ہفتے کے بعد درزی بل مانگنے آیا تو انہوں نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں آپ کا بل آپ کو مل جائیگا اب آغا صاحب کو درزی پر قیمتی وقت ضائع کرنے کا غصہ تھا اور وہ بدلہ لے رہے تھے۔