یہ ہمالیہ اور قراقرم کے درمیان‘ دریائے سندھ کے کنارے شہر سکردو ہے‘ اس علاقے کی ساری بستیاں‘ وادیوں میں‘ پہاڑوں کے درمیان بھنچی ہوئی ہیں۔ البتہ سکردویوں آباد ہے جیسے کشادہ پیالے کی تہہ میں موتی پڑا ہو سطح سمندر سے ساڑھے سات ہزار فٹ اوپر‘ کوئی بیس میل لمبا اور آٹھ میل چوڑا یہ بیضوی شکل کا پیالہ ہے جس کے گرد سترہ سترہ ہزار فٹ اونچے پہاڑ فصلیں بن کر کھڑے ہیں اور اس پیالے کے پیندے میں شفاف رو پہلی ریت بچھی ہے جن کے درمیان دریائے سندھ دھیمے دھیمے بل کھاتا چلا جاتاہے کہتے ہیں کہ سردیوں میں اس کا پانی سبز اور گرمیوں میں یوں سرمئی ہو جاتا ہے جیسے پرانی چاندی اور دونوں کناروں پر دور دور تک پھیلی ہوئی ریت جس پر ہوا کے ہاتھوں تراشی لہریں جن پر نہ کسی کے قدموں کے نشان‘ نہ کسی کے پیروں کی چاپ خدا جانے کیوں ریت کا ایسا کوراپنڈ دیکھ کر جی چاہا کہ اس پر دور تک اور دیر تک ننگے پاؤں چلیں یہاں تک کہ دریا کی تہہ سے بلند ہونے والی وہ بڑی سی اونچی پہاڑی آ جائے جس کے اوپر بہت پرانے قلعے کے کھنڈر آٹھ نو سو سال سے نیچے وادی کا نظارہ کر رہے ہیں۔
دریائے سندھ کیساتھ ساتھ چلتا ہوا میں بلتستان کی سرزمین پر آ گیا ہوں اور اب جہاں جہاں یہ دریائے جائے گا وہیں میں بھی چلوں گا۔ پہاڑوں کی جھولی کی تہہ میں پڑنے ہوئے یہ جو شہر قصبے اور گاؤں اب نئے دور کی روشنی میں پہلی بار آنکھ کھول کر اٹھ بیٹھے ہیں ان کا حال کہوں گا آپ میرے ساتھ ساتھ چلیے اور میری روداد سنتے جائیے۔ کچھ میری اور کچھ ان کی زبان جن سے یہ زمینیں آباد اور جن سے یہ وادیاں سرشار ہیں‘ جنہوں نے برفانی ہواؤں میں جینا سیکھا ہے اور باقی دنیاسے کٹ کر رہنے کا ہنر جانا ہے۔ میری ملاقات وادی شغر کے راجا محمد علی صبا صاحب سے ہوئی اس علاقے کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے راجا کبھی کے ختم ہوئے مگر ان کے خاندانوں کی اب بھی بڑی عزت اور وقعت ہے۔
راجا محمد علی صبا صاحب نہایت تعلیم یافتہ‘ مہذب‘ اچھے شاعر اور پولو کے بہت عہدہ کھلاڑی ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ایک راجا کی نگاہ سے آپ کیا دیکھتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ان وادیوں میں کیسی تبدیلی آئی ہے۔ وہ بولے وقت کے ساتھ توبہت تبدیلی آئی ہے۔ میری عمر اس وقت64 سال ہے۔ جہاں تک میں اپنے بچپن کو یاد کرتا ہوں تو میں خود بھی یہ محسوس کرتا ہوں کہ تبدیلی بہت تیزی سے آ رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ یہاں سکردو سے گلگت تک پہنچنے میں ایک مہینہ لگتا تھا۔ گھوڑے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بعض اوقات پیدل بھی نہیں جا سکتے تھے اب اس کے مقابلے میں یہاں آپ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بوئنگ جہاز اتر رہے ہیں اورپھر یہ ٹرک روڈ بن گیا ہے۔(رضا علی عابدی کی کتاب سے اقتباس)