باہمی تعلقات

مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد اپنی نشری تقاریر میں لکھتے ہیں کہ میں نے یہ ارادہ کیا کہ میں اپنے ادیب دوستوں کو صحافیوں کو اور دانشوروں کو بلانے اور تھانے کے ان لوگوں کو جو پولیس کے محکمے سے تعلق رکھتے ہیں ملاؤں گا اور ان کی آپس میں گفتگو کرواؤں گا تاکہ ان میں ارتباط باہمی پیدا ہو اور وہ ایک دوسرے کو پہچان لیں تو اس کا انتظام کیا گیا۔ ہمارے ہاں لاہور میں ایک جگہ ہے الفلاح‘ ہمارا ایک دفتر تھا نیشنل ری کنسٹرکشن کا۔ تو وہاں ایک ہال تھا اس میں بندوبست کیا۔ تو پولیس والے بہت خوش ہوئے اور وہ اپنی نئی نئی وردیاں اچھی کلف لگی ہوئی استری کی ہوئی‘ اچھے بوٹ چمکا کے آگئے۔ 
ان میں ڈی آئی جی‘ ایس ایس پی‘ انسپکٹر ایس ایچ او اور کافی ہال جو تھا‘ بھرا ہوا تھا۔ پھر الگ کرسیاں بھی تھیں اور ہم لوگ جو تھے‘ ہمارے ساتھی دانشور‘ ادیب‘ صحافی وہ بھی موجود تھے۔ یہ ہمارے درمیان بڑا خلا ہے اس کو پرُ کرنا چاہئے تو میں نے ان کو زحمت دی ہے۔ آئیں‘ آپ بھی کچھ بات کریں ’یہ بھی کریں۔ اچھی ہے یہ ابتداء جس طرح دنیا کے دوسرے ممالک میں خاص طور پر انگلستان میں جو ”بوبی“ محبت کی نظروں سے دیکھتا ہے۔
 ”بوبی“ جو سپاہی ہوتا ہے اس کا بچوں نے پیار سے نام ”بوبی“ رکھا ہوا ہے اور جتنے بچے سکول جاتے ہیں اور راستے میں کوشش کرتے ہیں کہ بوبی ان کو ملے جو ٹریفک کنٹرول کررہا ہوتا ہے وہ اسے ہاتھ ملا کر جائیں۔ بوبی کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ سکول جاتے بچوں کو ساتھ تھپکی دے‘ اگر اس کی جیب میں کوئی میٹھی گولی‘ لیمن ڈراپ ہو‘ وہ رکھتا ہے جیب میں۔ وہ ان کو ضرور دیتا ہے۔ ان کے درمیان محبت کا بہت گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو راستہ پوچھنے والے کوئی بھی‘ آپ کو مشکل ہو تو آپ اپنے بوبی سے پوچھتے ہیں کہ مجھے کہاں جانا ہے۔ 
میں لندن میں تھا تو ایک مائی بڈھی ہمارے ہاں کی‘ کوئی اس کو زبان بھی نہیں آتی تھی تو وہ بوبی اس کے ساتھ بے چارہ لگا رہا۔ اب وہ بول رہی تھی پنجابی وہ انگریزی۔ اب باہمی گفتگو جاری تھی۔ وہ ایک ہی بات کہہ رہی تھی کہ برہمی گاؤں میں جانا ہے۔ برہمی گاؤں جانا ہے وہ سمجھتا نہیں تھا’میں نے بھی مائی سے پوچھا میری بیوی بھی ساتھ تھی’تو وہ بعد میں پتا چلا کہ وہ برمنگھم جانا چاہتی تھی اور برہمی گاؤں تلاش کررہی تھی‘ تو اتنا ہمیں پتا چل گیا۔ اس نے کہا Thank you ver much میں اس مشکل سے نکل گیا ہوں ’وہ برمنگھم گاؤں جانا چاہتی تھی’I would help her آپ گھبرائیں نہیں۔ میں نے کہا‘ کیسے اب نہ اس کے پاس ٹکٹ ہے۔
 لندن تک تو وہ پہنچ گئی جہاز نے اتار دیا’کہنے لگا‘ Now it is my duty تو میں اس کو لے کر جاؤں گا۔ تو میں نے کہا‘ آپ کیسے جائیں گے۔ کہنے لگا نہیں ہمارے پاس روزمرہ کے اخراجات میں سرکار نے اتنے پیسے دئیے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی مشکل میں ہو تو اس کی مدد کریں۔ تو میں لے جاؤں گا۔ اپنا بھی ٹکٹ خرچ کروں گا‘ اس کا بھی کروں گا اور اس کو منزل تک پہنچاؤں گا تو اگر اس کا بیٹا جس کا پتہ اس نے بتایا ہے اس کے پاس سے پیسے مل گئے تو ٹھیک ہے ورنہ میں آکر اپنے محکمے کو بتا دوں گا۔
 تو میں یہ چاہتا تھا کہ ہمارے درمیان بھی اس قسم کا رشتہ قائم ہو تو کیسی محبت کی بات ہے۔ایک اور مقام پر اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ یہ عجیب انسانی فطرت ہے کبھی آپ اس کا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ عجیب لگے گی خاص طور پر کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب ہم نے خواہش پیدا کردی تو وہ پوری ہو’سب سے پہلے تو آپ کے ذہن میں یہ بات پیدا ہوتی ہے کہ اس کو فوراً پورا ہونا چاہئے یہی ہے نا ٗکبھی آپ آئس کریم جمائیں ٗ آپ نے آئس کریم والی مشین تو دیکھی ہوگی نا۔ اب تو بجلی والی آگئی ہے ٗ تو آئس کریم جمانے بیٹھیں تو خدا کے واسطے اس کا ڈھکنا بار بار نہ کھول کر دیکھتے رہیں کہ جمی ہے یا نہیں ’اس طرح تو وہ کبھی بھی نہیں جمے گی۔
 آپ اس کی راہ میں کھڑے نہ ہوں۔ جب آپ نے تہیہ کر لیا ہے کہ اس کو بننا ہے ٗاس میں سارا مصالحہ ڈال کر مشین کو چلانا شروع کردیں اور اس وقت کا انتظار کریں جب وہ پایہ تکمیل کو پہنچے۔میری اور میری آپ کی ایک بڑی بے چینی ہوتی تھی کہ ہم نے اپنی چتری مرغی کے نیچے انڈے رکھے تھے کہ اس میں چوزے نکلیں گے اور ہم دونوں اس بات کے بہت شوقین تھے اب اس کے تیئس دن بعد چوزوں کو نکلنا تھا ٗہم میں یہ خرابی تھی کہ ہر تیسرے چوتھے دن بعد ایک دو انڈے نکال کر انہیں سورج میں کرکے دیکھتے تھے ٗآیا ان کے اندر ایمبریو بنا ہے کہ نہیں ٗتو خاک اس میں سے چوزا نکلنا تھا بار بار اٹھاکے دیکھتے تھے اور پھر جا کر رکھ دیتے تھے۔
 آخر میں ہماری والدہ نے کہا خدا کے واسطے یہ نہ کیا کرو۔دیکھئے آپ نے جب ایک چھٹی لیٹر بکس میں ڈال دی تو پھر اس کے پاس جا کر کھڑے نہ ہوں کہ کب نکلتی ہے ٗ بھئی یہ کدھر لے جا رہا ہے کس گاڑی میں چڑھا دیا ہے میں تو یہ چاہتا تھا کہ تیز والی پر جائے جب آپ کی خواہشیں ہوتی ہیں اس میں رخنے اس لئے پیدا ہوتے ہیں مثلاً بچیوں کی شادیاں ایک بڑا مسئلہ ہے اور بہت بڑا مسئلہ ہے اس میں والدین کو بڑی تکلیف ہوتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ جلدی ہو۔یہ میں آپ کو جیسے کہ پچھلی باتیں بتا رہا تھا اور آئس کریم کی مثال دے رہا تھا۔
 ہمارے گھر میں بچے اس وقت بڑے ہو چکے تھے میں تو فرسٹ ائیر میں تھا ہمارے گھر میں ایک کیمرہ آیا اس زمانے میں کیمرہ آنا بڑی کمال کی بات تھی باکس کیمرے بہت کم ہوتے تھے باکس کیمرہ آیا ہمارے قصبے میں آیا لوگ بڑی بڑی دور سے گھوڑوں پر بیٹھ کر دیکھنے آئے اور انہوں نے کہا کہ خان صاحب کے گھر کیمرہ آیا ہے انہوں نے کہا جی کہ تصویر کھینچنی ہے۔
ذیلدار صاحب آئے اونٹ پر سوار ہو کے کہ تصویر کھینچنی ہے۔بڑے بھائی بی اے میں پڑھتے تھے ان کو اباجی نے باکس کیمرہ لادیا اب اس میں فلم ڈال کے اس زمانے میں شیشے کی پلیٹ ہوتی تھی پتلی سی Negativeکھینچنے کے لئے اس کو ڈال کے تصویر کھینچی ٗ تو پھر ہم بھائی کے گرد جمع ہوگئے ہمیں نکال کے دکھائیں کیسی ہوتی ہے اس نے کہا نہیں ابھی نہیں‘ہم نے کہا ٗ اس کا پھر کیا فائدہ۔ کیمرہ تو یہ ہوتا ہے آپ نے تصویر کھینچی ہے اور ابھی پوری ہو۔تو ہم کو یہ بتایا گیا کہ اس وقت نہیں آتی ہے تصویر لیکن آتی ضرور ہے لیکن ہماری یہ تربیت نہیں تھی ٹریننگ نہیں تھی ہم چاہتے تھے ابھی ہوا ہے تو ابھی اس کا رزلٹ ہمارے سامنے آئے ٗاور ہم کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔