ہم اس وقت اس کھائی میں جھانک رہے ہیں 

صدر بائیڈن پر انکے مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ وہ دو جملے صحیح نہیں بول سکتے انکا ذہن ساتھ نہیں دیتا اور وہ بھٹک جاتے ہیں میں نے انہیں ملک کے اندر اور باہر کئی ممالک میں پریس کانفرنسوں سے خطاب کرتے ہوے دیکھا ہے مجھے وہ  اکثرمدلل گفتگو کرتے نظر آئے ہیں مگر کئی مرتبہ خارجہ پالیسی پر اظہار خیال کرتے ہوے وہ ایسی باتیں کرجاتے ہیں جو انہیں نہیں کرنا چاہئے تھیں انکی اس طرح کی باتوں کو انگریزی میں Gaffe کہتے ہیں  یعنی  نازیبا بات یا فاش غلطی انکے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے لگ بھگ پچاس سالہ سیاسی کیرئر میں اتنی مرتبہ نادانستہ طور پر غلط بیانی کر چکے ہیں کہ واشنگٹن میں انہیں Gaffe Machine  کہا جاتا ہے فاکس نیوز چینل ہر روز انکی کوئی نئی یا پرانی غلط بیانی ڈھونڈ کر انکا مذاق اڑاتا ہے میرا خیال تھا کہ صدر بائیڈن کے حمایتی لاجواب ہو چکے ہیں وہ انکا دفاع نہیں کر سکتے مگر تئیس مئی کے کالم میں ٹام فریڈمین نے ایک جملہ صدر بائیڈن کے دفاع میں ایسا لکھا ہے جس نے سب قرض چکا دئے یہ جملہ پڑھ کر مجھے لگا کہ میڈیا لامحدود طاقت کا مالک ہے ایک ذہین صحافی یا کالم نگار ایک جچا تلا جملہ لکھ کر قومی مکالمے کا رخ موڑ دیتا ہے لوگ سوچ میں پڑ جاتے ہیں اس فکر انگیز جملے کے بعد بھی صدر بائیڈن کے مخالفین اپنے مورچوں پر ڈٹے رہیں گے مگر ایک مضبوط دلیل انکے سامنے رکھ دی گئی ہے ٹام فریڈ مین نے لکھا ہے ”وہ سب ہٹ دھرم جویہ کہتے ہیں کہ صدر بائیڈن دو جملے اکٹھے نہیں کر سکتا وہ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ اسنے نیٹو کو اکٹھا کردیا ہے‘  اسنے یورپ کو اکٹھا کردیا ہے اسنے کینیڈا سے لیکر فن لینڈ اور جاپان تک سب مغربی اتحادیوں کو اکٹھا کردیا ہے اب یہ سب ملکر یوکرین اور اسکی کمزور جمہوریت کو پیوٹن کے فاشزم سے بچا رہے ہیں“ 
ٹام فریڈمین نے یہ جملہ صدربائیڈن کو انٹرویو کرنے کے بعد لکھا تھا اس سے آگے وہ کہتا ہے کہ یہ کام ہر امریکی صدر نہیں کر سکتامگر اتنی بڑی کامیابی حاصل کرنے کے بعد بھی صدر بائیڈن مطمئن نہیں ہیں وہ پریشان ہیں کہ انہوں نے مغرب کو تو متحد کر دیا ہے مگر وہ شائد امریکہ کو متحد کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں گے وہ جانتے ہیں کہ انہیں منتخب ہی اسی لئے کیا گیا ہے کہ وہ اس منتشر اور بکھری ہوئی قوم کو اکٹھا کریں امریکنوں کی اکثریت مضطرب ہے کیونکہ انہیں اپنے ملک کا شیرازہ بکھرتا ہوا نظر آ رہا ہے،اور انہیں امید ہے کہ یہ Old War Horse  یعنی یہ پرانا جنگجو گھوڑا جسکا نام بائیڈن ہے اور جو مخالفین کو ساتھ لیکر چلنے کا ڈھنگ جانتا ہے وہ اس کٹھن کام کو کرنے کیلئے موزوں ترین شخص ہے فریڈ مین نے لکھا ہے کہ بائیڈن کے صدارتی انتخاب لڑنے کی وجہ اسکا یہ عزم تھا کہ وہ امریکنوں کو متحد کر یگا لوگ اسکی یہ خوبی جانتے ہیں کہ وہ سمجھوتے کرنے کے فن کاما  ہرہے مگر ہر گزرتے دن کیساتھ‘  ہر قتل عام کے بعد‘ قوم کو تقسیم کرنے والے سپریم کورٹ کے ہر فیصلے کے بعد‘  یونیورسٹیوں میں دانشوروں کو اظہار خیال سے روکنے والے ہر واقعے کے بعد اور الیکشن فراڈ کی دہائی دینے والی ہر تقریر کے بعدجو بائیڈن سوچتا ہے کہ وہ شائد اپنا وعدہ پورا نہ کر سکے گا۔ فریڈ مین نے لکھا ہے کہ وہ خود یہ سوچتا ہے کہI wonder if it is too lateشائد کہ بہت دیر ہو گئی ہے فریڈمین نے لکھاہے کہ اسے یہ ڈر ہے کہ امریکی بہت جلد ایک بہت قیمتی چیز کو توڑ دیں گے‘ یہ چیز اگر ایک مرتبہ ٹوٹ گئی تو پھر یہ جوڑی نہ جا سکے گی اور پھر ہم اسے کبھی بھی دوبارہ حاصل نہ کر سکیں گے یہ پڑھتے ہوے مجھے بے اختیار فیض صاحب کی لازوال نظم ”شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں“  یاد آ گئی: ۔
موتی ہو کہ شیشہ‘  جام کہ در....جو ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا
کب اشکوں سے جڑ سکتا ہے....جو ٹوٹ گیا سو چھوٹ گیا 
یہ ساغر‘  شیشے‘  لعل و گہر....سالم ہوں تو قیمت پاتے ہیں 
یوں ٹکڑے ٹکڑے ہوں‘  تو فقط.... چبھتے ہیں‘ لہو رلواتے ہیں۔
فریڈ مین صدر بائیڈن کے انٹرویو کو چھوڑ کر اندیشہ ہائے دور و دراز میں کھو جاتا ہے وہ لکھتا ہے کہ جمہوریت میں سب سے اہم‘ نازک اور ضروری کام اقتدار کی پر امن اور قابل قبول منتقلی ہوتا ہے یہ کام ہم نے بہ طریق احسن اپنے ملک کے ابتدائی دنوں سے کیا ہے The peaceful, legitimate transfer of power is the keystone of American democracy یعنی پر امن اور جائز انتقال اقتدار امریکی جمہوریت میں بنیاد کے پتھر کی حیثیت رکھتا ہے اسے توڑ دو تو پھر ہمارا کوئی ادارہ صحیح طریقے سے کام نہیں کر سکے گااور اسکے ساتھ ہی ہم سیاسی اور معاشی انتشار کا شکار ہو جائیں گے۔We are staring into that abyss right now ہم اسوقت اس کھائی میں جھانک رہے ہیں۔