نیا گرا کی منظر کشی

نیا گرا کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے تاہم امجد اسلام امجد جس خوبصورتی سے منظر کشی کرتے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جیسے پہلی مرتبہ اس آبشار کے بارے میں پڑھا جارہا ہو‘ امجد اسلام امجد لکھتے ہیں کہ حسب توقع آبشار تک پہنچتے پہنچتے شام رات میں گڈمڈ ہو چکی تھی‘تیز ہوا کی وجہ سے درختوں کی شاخوں پر جمی ہوئی برف اڑ اڑ کر سوئیوں کی طرح چہروں پر لگ رہی تھی‘ باقی جسم اور ہاتھ اگرچہ ڈھیر سارے گرم کپڑوں کی پناہ میں تھے‘جس وقت موسم میں ہم نے اس کی سیر کی وہ ہر لحاظ سے اس قدر نامعقول تھے کہ اصولاً آبشار کو ہم سے پردہ کر لینا چاہئے تھا لیکن فطرت کے حسن بے پروا کی یہی تو خوبی ہے کہ وہ اپنی موج میں مست رہتا ہے‘ اسے نہ چشم بینا کی پرو ا ہوتی ہے اور نہ چشم تماشائی کی بلکہ وہ تو نظر انداز کرنے والوں سے بھی گلہ نہیں کرتا‘ اشفاق نے بتایا کہ یہ آبشار انسان اور فطرت کی مشترکہ کاوش ہے یعنی ایک نیم قدرتی قسم کا معجزہ ہے۔
 اس قدر بلندی سے یکدم پانی کا اس نشیب میں گرنا ایک قدرتی عمل ہے لیکن انجینئرز نے اس کے کناروں کو ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رکھنے‘ اس کے حسن میں اضافہ کرنے اور اسے سیاحوں کیلئے زیادہ دلچسپ بنانے کی خاطر یہاں کچھ تبدیلیاں کی ہیں جس سے آبشار کے مقام‘ محل وقوع اور شکل وصورت میں خاصا فرق پڑگیا ہے‘ یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کا ایک حصہ امریکی ریاست بفیلو میں واقع ہے‘ ایک پل کے ذریعے دونوں ملکوں کو ملادیا گیا ہے‘ گویا اس وقت ہم امریکہ سے walking distanceپر کھڑے تھے‘ اشفاق نے بتایا کہ نیا گرا کا زیادہ خوبصورت حصہ چونکہ کینیڈا کی طرف واقع ہے اس لئے امریکہ کی طرف سے آنے والے سیاح بھی عام طور پر پل پار کرکے ادھر آجاتے ہیں۔آبشار سے کافی فاصلے پر ریلنگ کیساتھ کھڑے ہو کر کم روشنی میں ہم نے اس کے حسن کو دیکھنے کی کوشش کی‘ دور کہیں سے کچھ روشنیاں پانی کی اس عظیم جھالر پر ڈالی جارہی تھیں جو ایک پرشور اور قدرے دہشت انگیز آواز کیساتھ کئی سو فٹ گہرے نشیب میں گر رہی تھی‘پانی کی اس دیوار کے پیش منظر میں چکراتی ہوئی روشنیوں کے درمیان بے شمار آبی پرندے پتا نہیں کسے ڈھونڈتے پھررہے تھے‘ میں گم سم سا وہاں کھڑا تھا‘ پتا نہیں کتنی دیر بعد کسی نے مجھے آواز دی‘ میں نے پلٹ کر دیکھا تو جیسے سارا طلسم ایک لمحے میں ٹوٹ گیا۔
 ہوا سے لہراتی ہوئی ایک برف پوش شاخ میرے چہرے سے ٹکرائی اور میں نے دیکھا کہ اشفاق کا چار سالہ بیٹا صفی ہم سب اور سردی سے بے نیا پوزبنا کر تصویر اتروا رہا تھا۔امجد اسلام امجد اپنے سفر نامے میں ٹریفک سے جڑے مسائل کے تناظر میں دلچسپ انداز کیساتھ بتاتے ہیں کہ کس طرح وہ ائیر پورٹ پر ہی تھے اور جہاز پرواز کر گیا‘ امجد اسلام امجد لکھتے ہیں روانگی صبح نو بجے تھی‘ اصولاً ہمیں آٹھ بجے ائیر پورٹ پر ہوناچاہئے تھا مگر ہمارے میزبان ہمیں آٹھ بجے مزید ناشتے کے لئے مجبور کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ اس وقت ٹریفک کم ہوتی ہے اور ہم زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ میں ہوائی اڈے کے اندر ہونگے‘یہ پندرہ منٹ پھیل کر تین گنا ہوگئے پونے نو بجے ہم کاؤنٹر پر پہنچے جو اس وقت بھائیں بھائیں کررہا تھا مگر ہماری توقع کے برخلاف کاؤنٹر والی اجنبی چہارشیزہ کے برف آلود چہرے پر ہمارے اس قدر دیر سے آنے کا کوئی تکدردکھائی نہ دیا۔
 چار مسافر چھ بکسے اور چار ہینڈ بیگ چودہ کے چودہ نگ کسٹم کے کاؤنٹر پر جس سراسیمگی اور حواس باختگی کے عالم میں پہنچے اس کا فطری رد عمل وہی ہوا جو ہونا چاہئے تھا‘ کسٹم والے نے بڑے پروفیسر انہ انداز میں بتایا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا کے انتہائی قریبی اور دوستانہ تعلقات کے پیش نظر امریکہ جانے والوں کی امیگریشن کی Formailityیہیں پوری کرلی جاتی ہے‘ امیگریشن والے کی طرف بھاگے اس نے متعلقہ فارم اس طرح ہماری طرف بڑھائے جیسے زبان حال سے کہہ رہا ہو۔ حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی دو منٹ سے بھی کم عرصے میں ہم نے فارم بھر لئے مگر اس سے قبل کہ انہیں امیگریشن والے کے حضور پیش کرتے اور جہاز کی طرف ”وڑکی“ لگاتے (کیونکہ میری گھڑی کے مطابق فلائٹ کے اور ہمارے درمیان ابھی ایک منٹ باقی تھا ایک لمبے چوڑے گورے نے جو وردی میں ملبوس تھا اور جس کے ہاتھ میں وا کی ٹاکی تھا بڑی خوش دلی سے مسکراتے ہوئے ہمیں اطلاع دی کہ ہمارا جہاز پرواز کر چکا ہے!۔