سابق سینئر بیورو کریٹ قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب میں آزادی وطن کے وقت درپیش اقتصادی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تقسیم کے وقت حکومت ہند کے پاس چار ارب روپے کا کیش بیلنس تھا بڑی طویل تکرار‘حجت اور مول تول کے بعد پاکستان کو 75کروڑ روپیہ دینا طے ہوا بیس کروڑ کی ایک قسط ادا کرنے کے بعد بھارت نے اپنا ہاتھ روک لیا 14اگست1947ء کو جب پاکستان وجود میں آیا تو اس نئی حکومت کے پاس بس یہی نقد اثاثہ تھا اس وقت مملکت خداداد کے سامنے مسائل اوراخراجات کی غیرمعمولی بھر مار تھی بھارت کے لئے یہ سنہری موقع تھا کہ کیش بیلنس کی ادائیگی روک کر روز اول ہی سے اس نئی مملکت کے دیوالیہ پن کو ساری دنیا میں مشتہر کردے 15 اگست 1947ء سے15جنوری48ء تک کا زمانہ پاکستان کے لئے مالی لحاظ سے بڑا نازک اور پر خطر تھا‘لیکن یہ منزل بڑی خوش اسلوبی سے گزر گئی کیونکہ حکومت اور عوام دونوں آزادی کے نشے میں سرشار‘کام کی لگن میں چست اور ہر مشکل پر قابو پانے کے لئے تیار تھے آخر15جنوری1948ء کو گاندھی جی کے ’مرن برت‘ سے گھبرا کر بھارتی حکومت نے کیش بیلنس کی باقی قسط بھی بادل نخواستہ پاکستان کو ادا کردی۔
فوجی سامان کا ایک تہائی حصہ پاکستان کے حصے میں آنا باہمی رضا مندی سے منظور ہوا تھا آرڈیننس فیکٹریاں اور ملٹری سٹورڈپو سب کے سب بھارت میں تھے‘اس لئے ان پر بھارتی حکومت کا پورا قبضہ تھا مسلح افواج اور فوجی سامان کی تقسیم کے لئے جو ادارہ قائم ہوا تھا فیلڈ مارشل آکنلیک اس کے سپریم کمانڈر تھے جیسے ہی انہوں نے کوشش کی کہ پاکستان کو ملٹری سٹور وغیرہ کا منظور شدہ حصہ ملنا شروع ہوجائے‘کانگرسی حکومت نے آسمان سرپر اٹھالیا اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ مل کرایسے حالات پیدا کردیئے کہ فیلڈ مارشل آکنلیک کو استعفیٰ دے کر پسپا ہونا پڑا۔دہلی سے سرکاری ملازمین‘دفتری فائلوں اور دوسرے متعلقہ سامان کو کراچی پہنچانے کے لئے ہر روز ایک سپیشل ٹرین چلانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا‘لیکن بہت جلد یہ بندوبست ترک کردینا پڑا‘کیونکہ ان گاڑیوں پر ہندوؤں اور سکھوں کے شدید حملے شروع ہوگئے ان گنت لوگ مارے گئے۔
بہت سا ریکارڈ تلف ہوگیا بے شمار سامان لٹ گیا ٹرینوں کا سلسلہ بند ہونے کے بعد کچھ دنوں بعد بی او اے سی کے ہوائی جہازوں سے’آپریشن پاکستان‘ چلا کر کسی حد تک یہی کام لیاگیا۔ان گوناگوں مسائل کے علاوہ ایک بہت بڑا مسئلہ بنگال اور پنجاب کی تقسیم کا تھا ایک تجویز یہ تھی کہ یہ نازک اور اہم کام یو ااین او کی سرکردگی میں کروایا جائے‘لیکن پنڈت جواہرلال نہرو نے اسے دوٹوک رد کردیا قائداعظم کا مطالبہ تھا کہ صوبوں کی تقسیم کے لئے جو باؤنڈری کمیشن بنائے جائیں ان میں انگلستان کے تین لاء لارڈز کو شامل کیا جائے اس کا جواب یہ ملا کہ لاء لارڈز کہنہ سال لوگ ہیں اور وہ ہندوستان کی گرمی برداشت نہ کرسکیں گے‘چنانچہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی نامزدگی پر قرعہ فال ایک انگریز وکیل سرسیرل ریڈ کلف کے نام نکلا اور بنگال اور پنجاب کی تقسیم کے لئے جو باؤنڈری کمیشن ترتیب دیئے گئے اسے ان دونوں کا مشترکہ چیئرمین بنادیاگیا۔