پہلا اور آخری کالم 

 انیسویں صدی کی بھولی بسری کتابوں کو پرانے ذخیروں سے نکالنے اور ریڈیو پر پڑھ کر سنانے کا سلسلہ اپنے خاتمے کو پہنچا تو طے پایا کہ اس کی جگہ ایک نیا اور رنگارنگ پروگرام پیش کیا جائے۔ بی بی سی میں اکثرپروگراموں کے دو نام ہوا کرتے تھے ایک انگریزی اور دوسرا اردو میں‘ اس نئے پروگرام کا انگریزی نام”سنڈے میگزین“ قرار پایا‘ اردو میں اس کا نام ”اتوار کے اتوار“ رکھاگیا۔اس پروگرام کامرکزی خیال یہ تھا کہ اس میں دنیا زمانے کی دلچسپ باتیں کی جائیں‘ طرح طرح کے موضوعات چھیڑے جائیں‘ زندگی کے ہر شعبے کے لوگوں کو بلا کر ان سے گفتگو کی جائے اور چلتے چلتے کوئی بھولا بسرا نغمہ سنوا دیا جائے۔ میرے پاس پرانے گانوں کا بڑا ذخیرہ تھا اور میں جانتا تھا کہ یہ نغمے ایک خاص نسل کے سننے والوں کو لبھاتے ہیں مجھے یہ بھی پتہ تھا کہ دلی سٹیشن کے اردو پروگرام میں صبح صبح پرانے نغمے نشر کئے جاتے تھے اور کراچی کے ہرگھر سے ان ہی گانوں کی آوازگونجا کرتی تھی۔ میرا ٹھکانہ کراچی ہی تھا۔”اتوار کے اتوار“ نام کے پہلے پروگرام کیلئے مجھے دو ایک چونکانے والے موضوعات کی تلاش تھی یہ وہ دن تھے جب اردو کے ممتاز طنز نگار اور شاعر ابن انشاء اپنے علاج کیلئے لندن آئے ہوئے تھے وہ ”کتب خانہ“ کے آخری پروگرام میں شریک بھی ہوئے اگلے ہی ہفتے ”اتوار کے اتوار“ شروع ہونے والا تھا۔ ان سے طے پایا کہ جیسے انہوں نے برسہا برس اخباروں کیلئے کالم لکھے تھے‘ اب ریڈیو کیلئے ہفتہ وار کالم لکھیں۔ خیال نیا اور اچھوتا تھا‘وہ آمادہ ہوگئے‘ابن انشاء نے اپنی زندگی کا پہلا ریڈیائی کالم لکھا۔کسے پتہ تھا کہ یہی ان کی زندگی کا آخری کالم ہو گا۔ان کا مرض بڑھتا گیا اور وہ دیکھتے دیکھتے چل بسے۔ کیسی روشنی تھی ان سے کیسااندھیرابھر گیا فضا میں۔(رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے اقتباس)