امجد اسلام امجد اپنے سفرنامے میں نئے واقعات کیساتھ جگہ جگہ پرانی یادیں بھی لکھتے ہیں جو قارئین کی دلچسپی مزید بڑھادیتی ہیں ایسی ہی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ میں عام طور پر خاصی بلند آواز میں بولتا ہوں‘محفل بے تکلف ہو توو الیوم مزید بلند ہوجاتا ہے اگلی صبح ناشتے کی میز پرجوکچن ہی کے ایک کونے میں واقع تھی‘عالی‘شبیر اور میں کسی موضوع پر بات کررہے تھے کسی بات پر ہم تینوں زور سے ہنسے (میرا قہقہہ بلند تر تھا)فائزہ نے انڈوں کی ڈش میز پر رکھی اور مسکرا کر کہا آج ناشتہ انہی برتنوں میں ملے گا کیونکہ میں اس ماحول میں اپنے چینی کے برتن نکالنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی‘اس پر قہقہہ پڑا اسکی گونج اگلے دو دن تک فضا میں رہی کیونکہ یہ جملہ ہر نئے آنے والے کو سنایا جاتا تھا مجھے یاد آیا کہ ایم اے اردو کی کلاس میں ڈاکٹر وحید قریشی اس قدر بلند آواز میں لیکچر دیا کرتے تھے کہ بلا مبالغہ انکی آواز تیسرے کمرے تک جاتی تھی‘ ایک دن جب انکا لیکچر پنجم سر میں جاری تھا اور ان کی آواز کمرے کے درودیوار سے ٹکرا کر چاروں طرف گونج رہی تھی سب سے اگلی لائن میں بیٹھی ہوئی ایک لڑکی گھبرا کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی ڈاکٹر صاحب نے پوچھا۔کیا ہوا؟
لڑکی نے عجیب بے بسی کیساتھ جواب دیا سر آواز نہیں آرہی“لیکن اس سے بھی اچھا تبصرہ میرے قہقہے پر گلزاروفا چوہدری کا ہے میں ان دنوں پنجاب آرٹ کونسل میں ڈپٹی ڈائریکٹری کیا کرتا تھا اور قاسمی صاحب کے ’فنون‘ کا دفتر انار کلی میں ہوا کرتا تھا قاسمی صاحب راوی ہیں کہ وہ اور گلزار دفتر کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے کہ کسی کے ہنسنے کی آواز آئی گلزار نے کہا کہ یہ امجد کے ہنسنے کی آواز ہے اوپر پہنچے تو میں وہاں نہیں تھا گلزار نے فوراً کہا آواز اسی کی تھی‘ہوسکتا ہے وہ اپنے دفتر میں ہنسا ہو! اس دن ہم نے مونٹریال کا سٹیڈیم دیکھا جہاں 1976ء کے اولمپکس ہوئے تھے اولمپک ولیج دیکھا اور اس پہاڑی پر گئے جہاں سے پورا مونٹریال شہر دکھائی دیتا ہے اور بے شمار تصویریں اتاریں‘میں اسوقت خالص پاکستانی انداز کی لمبی شلوار قمیض میں شبیر کی تصویر کیلئے پوز بنائے کھڑا تھا جبکہ عالی پروین کو مونٹریال کی تاریخ پر فرانسیسی اثرات کے متعلق ایک ایسا معلومات آمیز لیکچر دے رہے تھے جسکی اسے ہرگز کوئی ضرورت نہیں تھی۔اور ایک جگہ امجد اسلام امجدلکھتے ہیں کہ کھانے کے بعد ریڈیو انٹرویو کا سلسلہ شروع ہوا۔
انٹرویو کرنے والے صاحب کا تعلق غالباً ادب اور ریڈیو کے علاوہ ہر چیز سے تھا۔ اس کا اندازہ ہمیں ان کے کھانے کے دوران کی جانے والی گفتگو سے ہی ہوگیا تھا مگر اب جو انہوں نے انٹرویو شروع کیا تو ہمیں ا ن کی معلومات اور صلاحیتوں کا صحیح اندازہ ہوا۔ موصوف کو کینیڈا میں آباد ہوئے تقریباً بیس برس ہوچکے تھے اور وطن کے حالات، ادب، فنون لطیفہ اور معاشرتی تبدیلیوں کے بارے میں ا ن کی بے خبری کی عمر بھی تقریباً اسی قدر تھی۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو ادب وفن پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیشہ یہ رٹا رٹایا جملہ ضرور بولتے ہیں کہ فنکار اور مفلسی لازم و ملزوم ہیں اور یہ کہ اعلیٰ فن کی تخلیق کیلئے فنکار کا برے حال اور بانکے دیہاڑے ہونا ضروری ہے چنانچہ انہوں نے اپنی گفتگو کا آغاز جس جملے سے کیا وہ کچھ یوں تھا:”میں آپ کو مونٹریال میں خوش آمدید کہتاہوں۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ اب شاعر لوگ ہوائی جہازوں پر سفر کرنے لگے ہیں اور انہیں اتنی دور دور بلایا جاتاہے‘ آپ کا اس سلسلے میں کیا خیال ہے؟“ میرے تو جیسے سر میں لگی اور تلوؤں میں بجھی۔ میں نے بظاہر مسکراتے ہوئے کہا۔”جی ہاں“اصل میں آپ احباب جب سے تلاش معاش کیلئے وطن سے نکلے ہیں اور روٹی ڈھونڈتے ڈھونڈتے ان علاقوں میں آباد ہوئے ہیں تو آپ کے اندر کی تہذیبی پیاس نے فنکاروں کے اس طرح کے دوروں کو ممکن بنا دیا ہے۔“میرا جملہ شاید میری مسکراہٹ کے باوجود زیادہ تیز تھا کیونکہ اس کے بعد ایک دم خاموشی چھا گئی جس کے دوران ٹیپ چلنے اور عالی جی کے ہنکاروں کے سوا کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔