بندوق

امریکہ میں تواتر سے ہونیوالے تشدد آمیز واقعات اور انکے نتیجے میں انسانی جانوں کا زیاں ایک معمول کی بات بن چکا ہے گزشتہ دو ہفتوں میں دو ایسے المیے رو نما ہوئے جنہوں نے ہر کسی کو خوفزدہ کر دیا ہے ان میں سے ایک واقعہ Buffalo میں چودہ مئی کو پیش آیا جسمیں ایک اٹھارہ سالہ سفید فام نوجوان نے دس سیاہ فام لوگوں کو ایک گروسری سٹور میں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیااسکے دس روز بعد دوسرا واقعہ ٹیکساس کے ایک چھوٹے ٹاؤن Uwalde میں رونما ہوا جسمیں ایک اٹھارہ سالہ لاطینی نوجوان نے ایک سکول میں فائرنگ کر کے انیس بچوں اور دو اساتذہ کو ہلاک کر دیایہ کوئی نسلی تعصب کی واردات نہ تھی کیونکہ ہلاک ہونیوالے افرادبھی لاطینی تھے ان دونوں المناک واقعات میں جو حقیقت زیادہ اہم ہے وہ قاتلوں کی عمر ہے دونوں کی عمر اٹھارہ سال ہے اور تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں تنہا زندگی بسر کر رہے تھے اور دونوں نے ایک ہی قسم کا اسلحہ استعمال کیا اوردونوں مکمل تربیت حاصل کر کے ایسے میدان میں اترے جیسے کوئی تجربہ کار فوجی دشمن پر حملہ آور ہوتا ہے۔
 یہ دونوں المناک واقعات ابھی تک کیبل نیوز چینلز پر چھائے ہوئے ہیں اور قومی اخبارات کے پہلے صفحات پر نظر آ رہے ہیں  یہ کوئی نئی بات نہیں جب کبھی بھی ایسے المیے رونما ہوتے ہیں تو میڈیا میں Gun Violence گن کنٹرول اور آئین کی دوسری ترمیم پر ایک نہ ختم ہونیوالی بحث شروع ہو جاتی ہے جو چند دنوں بعد کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو جاتی ہے اس بحث و مباحثے کے شور میں یہ حقائق دب جاتے ہیں کہ اس ملک میں ہر روز 321افراد کو شوٹ کیا جاتا ہے ہر روز 42 قتل ہوتے ہیں اور ہر روز 65افراد خود کشی کرتے ہیں یہ ایک ایسا تشدد ہے جسکی تاریخ اتنی پرانی ہے جتنا کہ یہ ملک ایسے میں بے خبر لوگ پوچھتے ہیں کہ حکومت اتنی بے بس کیوں ہے اور کانگرس ایسے قوانین کیوں نہیں بناتی جو اسلحے کی فروخت پر پابندی لگا دے جو لوگ اس ملک کی تاریخ اور سماج کو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک لا علاج مرض ہے ایک تجزیہ نگار نے کہا ہے ان دونوں المیوں کے بعد بھی کچھ نہیں ہو گا کوئی تبدیلی نہیں آئیگی  America is too sick, too broken.It is perhaps beyond repair یعنی امریکہ اتنا بیمار اور ٹوٹا ہوا ہے کہ اسے کوئی جوڑ نہیں سکتا ایسا آخر کیوں ہے۔
اسکی وجہ یہ ہے کہ لوگ خوفزدہ ہیں اس ملک کی تینتیس کروڑ آبادی میں کم از کم چالیس فیصد سیاہ فام‘ لاطینی ممالک کے لوگ اور دنیا بھر سے آئے ہوئے تارکین وطن ہیں سفید فام امریکنوں کی ایک بڑی تعداد اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ باہر سے آئے ہوے لوگوں کی ایک بڑی اکثریت جرائم پیشہ افراد پر مشتمل ہے یہ جھوٹ دائیں بازو کے میڈیا نے اتنی شدت سے مقامی آبادی کے ذہن میں بٹھا دیا ہے کہ لوگ اپنے گھروں کو ایک قلعہ بنانے کو ضروری سمجھنے لگے ہیں یہ ذہنی رویہ وسط مغربی اور جنوبی ریاستوں میں زیادہ ہے لیکن تمام بڑے شہروں میں نہایت کم ہے ان بڑے شہروں میں کہ جنہیں ساحلی یا Coastal America کہا جاتا ہے میں تارکین وطن ایک بڑی تعداد میں رہتے ہیں یہاں ڈیمو کریٹک پارٹی کے ووٹر زیادہ ہیں جبکہ وسط مغربی اور جنوبی ریاستیں ریپبلیکن پارٹی کا گڑھ ہیں ان ریاستوں کے انتہا پسند لوگ یہ کہتے ہیں کہ آئین کی دوسری ترمیم جو اسلحہ رکھنے کا حق دیتی ہے صرف بطخوں کے شکار کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ اپنے خاندان اور اپنے ملک کے تحفظ کیلئے ہے انکے خیال میں انکی حکومت اور کانگرس کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ ان سے گھروں میں اسلحہ رکھنے کا حق چھین لے اب تو یہ کھلم کھلا کہا جا رہا ہے کہ جو حکومت شہریوں کو بندوق نہ رکھنے دے اسے ختم کر دینا چاہئے۔
 ریپبلیکن پارٹی اگر چاہے بھی تو اپنے حامیوں کے اس رحجان کو ختم نہیں کر سکتی فلوریڈا کی کانگرس کے ایک ریپبلیکن ممبر نے Uwalde میں بچوں کے قتل عام کے بعد کہا ہے کہ اگر صدر بائیڈن نے ہم سے ہماری بندوقیں لینے کی کوشش کی تو ہم اسے بتا دیں گے کہ آئین میں دوسری ترمیم کس لئے لکھی گئی تھی اور آئین لکھنے والوں نے لوگوں کو اسلحہ رکھنے کا حق کیوں دیا تھا۔  آئین میں دوسری ترمیم 1791 میں لکھی گئی تھی اسکے مطابق The right of the people to keep and bear arms shall not be infringed  اسلحہ رکھنے کا حق لوگوں سے نہیں چھینا جا سکتا بعض قانونی ماہرین نے اس کی یہ تشریح کی ہے کہ رومن ایمپائر کے آئین میں ہر شہری کو سپاہی اور ہر سپاہی کو شہری بنانے کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے اس آئینی ترمیم کے مخالفین کئی مرتبہ اسے عدالت عظمیٰ میں لے گئے اور پوچھا کہ کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ لوگ سیمی آٹومیٹک رائفلز بھی گھروں میں رکھ سکتے ہیں کیا ایک شہری ایسا اسلحہ بھی رکھ سکتا ہے جو ایک ہی وار میں بیسیوں افراد کو ہلاک کر دے۔
کیا یہ ترمیم صرفSelf Defenseکیلئے نہیں ہے گذشتہ بائیس برسوں میں دو مرتبہ اس ترمیم کے مخالفین نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا مگر دونوں مرتبہ ججوں کی اکثریت نے اسکے حق میں وہی فیصلہ دیا جو دو صدیوں سے دیا جا رہا ہے عدالت عظمیٰ میں یہ بحث اکثر سیلف ڈیفنس کی مختلف تشریحات کے گرد گھومتی رہتی ہے اس کیس کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جج صاحبان کی اکثریت اس بات کو ملحوظ خاطر رکھتی ہے کہ اس ترمیم کی منسوخی شدید رد عمل کوجنم دیگی۔ڈیمو کریٹک پارٹی کئی مرتبہ اس گمبھیر مسئلے کا یہ حل پیش کر چکی ہے کہ اسلحے کے ہر خریدار کا بیک گراؤنڈ چیک کرنے کے بعد اسلحہ فروخت کیا جائے لیکن ریپبلیکن پارٹی ایسا کوئی قانون بنانے پر آمادہ نہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ گن لابی ریپبلیکن پارٹی کو دل کھول کر چندہ دیتی ہے اور جب کبھی بھی قتل عام کا کوئی واقعہ رو نما ہوتا ہے تو گن لابی شدو مد کیساتھ دوسری آئینی ترمیم کی بحث شروع کر دیتی ہے ہر مرتبہ یہ شورا تنا زیادہ ہوتا ہے کہ ہلاک شدگان کے لواحقین کی گریہ و زاری اسمیں دب کر رہ جاتی ہے یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ہر بہیمانہ واردات کے بعد اسلحے کی فروخت میں اضافہ ہو جاتا ہے دو سال پہلے ری پبلیکن پارٹی کے ایک مخالف دانشورDavid French نے Divided We fall  کے عنوان سے ایک کتاب لکھی اسکا لب لباب یہ تھا کہ امن پسند امریکی بلآخر اپنے لئے ایک الگ ملک بنانے پر مجبور ہو جائینگے۔