قدرتی مناظر

امجد اسلام امجد اپنے مخصوص انداز میں کینیڈا کے خوبصورت مناظر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اب پتا نہیں یہ موسم کا اثر تھا یا ہوائی جہاز بھی ہماری طرح باذوق تھا کیونکہ پہلی بار فلائٹ منزل مقصود پر پندرہ منٹ کی تاخیر سے پہنچی کینیڈاکی وسعت کا اندازہ اس سے کیجئے کہ چار گھنٹے کی کل فلائٹ میں دو گھنٹے Time Differenceتھا یعنی ہماری گھڑیوں پر تین بجے تھے اور کیلگری میں پانچ بج رہے تھے ائر پورٹ پر اقبال حیدر اور حسن ظہیر کیساتھ ساتھ حد نظر تک پھیلی ہوئی برف ہماری منتظر تھی‘میں نے زندگی میں اتنی برف پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی‘کیلگری کا علاقہ تیل کی پیداوار کیلئے بے حد مشہور ہے وہاں کی معیشت کا دارومدار بھی تیل کی مصنوعات اور ریفائنریوں پر ہے‘ یہ برف میں ’کالا سونا‘ کہاں سے آ گیا؟
 ایئر پورٹ سے شہر جاتے وقت بے آبادسڑک کے دونوں طرف حد نظر تک برف ہی برف تھی ہمارے میزبان حسن ظہیر‘جو خود بھی آئل کمپنی میں انجینئر تھے ہمیں اس علاقے کے بارے میں بتا رہے تھے مگر ذہن ابھی تک برف میں تیل کی پراسرار گتھی میں الجھا ہوا تھا میں نے اپنی کم علمی بلکہ لاعلمی چھپانے کیلئے خوب چکر دیکر باتوں باتوں میں حسن ظہیر سے یہی سوال کیا کہ تو اس مرد شریف نے زمین کی جیالوجیکل حالتوں کے بارے میں ایک ایسا لیکچر شروع کردیا کہ میں توخیر سائنس میں تھا ہی کورا‘عالی بھی جو عام حالات میں کسی موضوع میں بند نہیں ہوتے’ہاں ہوں‘ سے آگے نہ بڑھ سکے حسن ظہیر کو شاید اس امر کا احساس ہوگیا تھا کہ اسکی گفتگو ضرورت سے کچھ زیادہ ٹیکنیکل ہورہی ہے چنانچہ اسنے لیکچر ادھورا چھوڑ کر ہم سے ہمارے بارے میں باتیں شروع کردیں بات دوبارہ پٹرول تک پہنچ گئی۔
 اب مجھ سے نہیں رہا گیا میں نے فوراً صوفی تبسم مرحوم سے متعلق ایک مشہور واقعہ داغ دیا کہ وہ تانگے میں سوار ریڈیوسٹیشن جارہے تھے واقعی لیٹ تھے یا انہیں اسکا وہم ہوگیا تھا بہر حال سنت نگر سے لکشمی چوک تک پہنچتے پہنچتے انہوں نے کوئی بیس مرتبہ تانگے والے کو تیز چلانے کیلئے کہا‘ تانگے والا بھی یکے اززندہ دلان لاہور تھاتانگے کو سیدھا ایبٹ روڈ کے چوک میں واقع پٹرول پمپ پر لے گیا پٹرول پمپ والے سے طنزاً کہااس میں دو گیلن پٹرول ڈال دو‘ اس بزرگ کو بہت جلدی ہے۔ایک اور مقام پر امجد اسلام امجدنیاگراآبشار کے بارے میں لکھتے ہیں کہ حسب توقع آبشار تک پہنچتے پہنچتے شام رات میں گڈمڈ ہو چکی تھی‘تیز ہوا کی وجہ سے درختوں کی شاخوں پر جمی ہوئی برف اڑ اڑ کر سوئیوں کی طرح چہروں پر لگ رہی تھی‘ باقی جسم اور ہاتھ اگرچہ ڈھیر سارے گرم کپڑوں کی پناہ میں تھے۔
جس وقت موسم میں ہم نے اس کی زیارت کی وہ ہر لحاظ سے اس قدر نامعقول تھے کہ اصولاً آبشار کو ہم سے پردہ کر لینا چاہئے تھا لیکن فطرت کے حسن بے پروا کی یہی تو خوبی ہے کہ وہ اپنی موج میں مست رہتا ہے‘ اسے نہ چشم بینا کی پرو ا ہوتی ہے اور نہ چشم تماشائی کی بلکہ وہ تو نظر انداز کرنے والوں سے بھی گلہ نہیں کرتا‘ اشفاق نے بتایا کہ یہ آبشار انسان اور فطرت کی مشترکہ کاوش ہے یعنی ایک نیم قدرتی قسم کا معجزہ ہے‘ اس قدر بلندی سے یکدم پانی کا اس نشیب میں گرنا ایک قدرتی عمل ہے لیکن انجینئرز نے اس کے کناروں کو ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رکھنے‘ اس کے حسن میں اضافہ کرنے اور اسے سیاحوں کیلئے زیادہ دلچسپ بنانے کی خاطر یہاں کچھ تبدیلیاں کی ہیں جس سے آبشار کے مقام‘ محل وقوع اور شکل وصورت میں خاصا فرق پڑگیا ہے۔
 یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کا ایک حصہ امریکی ریاست بفیلو میں واقع ہے‘ ایک پل کے ذریعے دونوں ملکوں کو ملادیا گیا ہے‘ گویا اس وقت ہم امریکہ سے walking distanceپر کھڑے تھے‘ اشفاق نے بتایا کہ نیا گرا کا زیادہ خوبصورت حصہ چونکہ کینیڈا کی طرف واقع ہے اس لئے امریکہ کی طرف سے آنے والے سیاح بھی عام طور پر پل پار کرکے ادھر آجاتے ہیں۔آبشار سے کافی فاصلے پر ریلنگ کیساتھ کھڑے ہو کر کم روشنی میں ہم نے اس کے حسن کو دیکھنے کی کوشش کی‘ دور کہیں سے کچھ روشنیاں پانی کی اس عظیم جھالر پر ڈالی جارہی تھیں میں گم سم سا وہاں کھڑا تھا‘ پتا نہیں کتنی دیر بعد کسی نے مجھے آواز دی‘ میں نے پلٹ کر دیکھا تو جیسے سارا طلسم ایک لمحے میں ٹوٹ گیا‘ ہوا سے لہراتی ہوئی ایک برف پوش شاخ میرے چہرے سے ٹکرائی اور میں نے دیکھا کہ اشفاق کا چار سالہ بیٹا صفی ہم سب اور سردی سے بے نیا پوزبنا کر تصویر اتروا رہا تھا۔