صرف اپنے آپ کو دیکھنا

آج سے کئی برس پہلے کی بات ہے میں ایک رسالہ دیکھ رہا تھا تو اس میں ایک تصویر نما کارٹون تھا‘جس میں ربڑ کی ایک بہت مضبوط کشتی گہرے سمندروں میں چلی جا رہی تھی اور غالباً اس کشتی میں سوار لوگ کسی خاص قسم کی مچھلی کا شکار کرنے نکلے تھے (اس کارٹون سے اس قسم کا تاثر ملتا تھا) اس ربڑ کی مضبوط کشتی کے ایک طرف سوراخ ہوگیا اور سمندر کا پانی بڑے دباؤ کیساتھ کشتی کے اندر داخل ہونے لگا‘ کشتی میں جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے وہ ڈبے‘گلاس اور مگ لے کر یا جو بھی کچھ ان کے پاس تھا پانی نکالنے کی کوشش کرتے رہے اس کشتی کی دوسری سائیڈ پر جس طرف سوراخ نہیں ہوا تھا جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے وہ انتہائی پرسکون نظر آرہے تھے‘ ان میں سے ایک نے کہا کہ ہمیں بھی کشتی سے پانی نکالنا چاہئے لیکن اسکے ساتھیوں نے کہا کہ دفع کرو یہ ہماری سائیڈ تھوڑی ہے‘ اس سے ہمارا کیا تعلق۔ وہ خود ہی نکال لیں گے۔خواتین و حضرات!انسانی رویوں میں بڑی خرابی اسوقت پیدا ہوتی ہے جب آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ میں الگ تھلگ اپنی ایک دنیا کا باسی ہوں۔ میرا اپنا ایک ماحول ہے اور میں باقی کی دنیا سے متعلق نہیں ہوں۔ہم ایک مخصوص علاقے کے بندے ہیں۔ پانی اگر ایک سائیڈ سے آرہا ہے تو شوق سے آئے ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ ہم اپنے اندا ز سے چلیں گے اور موج میلہ کریں گے حالانکہ حقیقت میں ایسانہیں ہے ہم سارے کے سارے ایک دوسرے کیساتھ بندھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کیساتھ وابستہ ہیں‘جب زندگی میں بہت مشکل پڑتی ہے، بہت الجھنیں ہوتی ہیں (اللہ نہ کرے کہ آپ پر ایسی الجھنیں پڑیں جو آپ کی روح کے اندر تک اترجائیں) تو پھر آپ کو احساس ہونے لگتا ہے کہ انسان کا انسان کے ساتھ تعلق ہے۔ باوصف اس کے کہ مجھے اپنا پڑوسی بہت برا لگتا ہے۔ مجھے اپنے ساتھ اکام کرنے والے بہت برے لگتے ہیں۔ مجھے اپنا باس زہر لگتا ہے لیکن میری وابستگی اس کیساتھ ساتھ چلی آرہی ہے۔
واقعی زندگی مصروف ہوگئی ہے‘واقعی اس کے تقاضے بڑے ہوگئے ہیں‘لیکن جب انسان‘ انسان کے ساتھ رشتے میں داخل ہوتا ہے تو سب سے بڑا تحفہ اس کا وقت ہی ہوتا ہے جب آپ کسی کو وقت دیتے ہیں یا کوئی آپ کو وقت دیتا ہے اپنا لمحہ عطا کرتا ہے تو آپ حال میں ہوتے ہیں اس کا تعلق ماضی یا مستقبل سے نہیں ہوتا لیکن کبھی کبھی یہ بات میں تفریح کے طور پر کرتا ہوں تاکہ اپنے استاد کو بہت داد دے سکوں اور ان کا مان بڑھانے کے لئے اور ان کے سامنے عاجزی سے کھڑے ہونے کے لئے کہتا ہوں جس زمانے میں ہمارے استاد پطرس بخاری ہمیں گورنمنٹ کالج چھوڑ کر یواین او میں چلے گئے تھے اور وہ نیویارک ہی رہتے تھے جس علاقے یا فلیٹ میں وہ تھے وہاں استاد مکرم بتاتے ہیں کہ رات کے دوبجے مجھے فون آیا اور بڑے غصے کی آواز میں ایک خاتون بول رہی تھیں وہ کہہ رہی تھیں کہ آپ کا کتا مسلسل آدھ گھنٹے سے بھونک رہا ہے اس نے ہماری زندگی عذاب میں ڈال دی ہے‘ میرے بچے اور میرا شوہر بے چین ہوکر چار پائی پر بیٹھ گئے ہیں اور اس کی آواز بند نہیں ہوتی‘اس پر بخاری صاحب نے کہا کہ میں بہت شرمندہ ہوں اور آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ میرا کتا اس طرح سے Behave کررہا ہے لیکن میں کیا کروں میں مجبور ہوں اس پر اس خاتون نے غصے میں آکر فون بند کردیا اگلے ہی روز بخاری صاحب نے رات ہی کے دوبجے ٹیلیفون کرکے اس خاتون کو جگایا اور کہا کہ محترمہ!میرے پاس کوئی کتا نہیں ہے‘ مجھے کتوں سے شدید نفرت ہے کل رات جو کتا بھونکا تھا وہ میرا نہیں تھا اب دیکھئے کہ انہوں نے کس خوبصورتی سے حال کو مستقبل سے جوڑا! یا میں یہ کہوں گا کہ ماضی کو مستقبل کیساتھ جوڑا! یہ بخاری صاحب کا ہی خاصا تھا۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)