مشہور مصنف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی اپنے سفری یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ دریائے سندھ کے کنارے کنارے چلتے ہوئے چینی طرز کا ایک پل نظر آیا اس پر لکھا تھا نالہ دبیراور پہاڑوں کے اندر سے برآمد ہونے والے نالے کا پانی چٹانوں سے ٹکرا کر جھاگ جھاگ ہوا جارہا تھا بالکل یوں لگا جیسے دور ابلا پڑرہا ہو دونوں طرف لوگوں نے پتھروں کی دیواریں اٹھا کر زمین کے زینے سے بنادیئے تھے جن پر فصلیں اگی تھیں اور لمبے لمبے اونچے درخت اتنے گہرے ہرے تھے کہ دور سے کالے نظر آتے تھے ایسے دلکش پہاڑی نالے کے پاس رہنے والے بعض لوگوں نے اپنے مکان نیچے نہ صرف نالے کے کنارے بلکہ پانی کے درمیان دھری چٹانوں کے اوپر اس طرح بنالئے تھے کہ کہیں سفید پانی دہلیزوں کو چھو رہا تھا اور کہیں فرش کو میں نے سوچا کہ رات کو ان مکانوں میں سونے والوں کو غضب کی لہروں اور ان کے شدید تھپیڑوں اور بلا کے شور کے باوجود کیسی اچھی نیند آتی ہوگی اس چھوٹی سی بستی کا نام رانگیلا تھا نالہ دبیر پار کرتے ہی رانگیلا کا بازار آگیا سودے سلف کی دکانیں‘مسافر خانے‘ چائے خانے اور درزیوں‘حجاموں‘مستریوں اور جفت سازوں کی دکانیں اور بازار میں خالی خولی گھومتے ہوئے لوگ ہر جانب نظر آئے میری جیپ رکی تو سارا بازار رک گیا رانگیلا کے بچوں اور جوانوں نے جیپ کو گھیر لیا بے شمار لوگوں نے دعوت دی آیئے صاحب چائے پی لیجئے اور پھر اچھا بھلا ہجوم مجھے سامنے چائے خانے میں لے گیا۔
وہاں میری ملاقات ایک ڈرائیور سے ایک باخبر باشعور شہری سے پی ڈبلیو ڈی کے ایک ٹھیکیدار سے ایک چھوٹے سے دکاندار سے اور اوپر پہاڑوں پر جو جنگل کھڑے ہیں ان کے ایک محافظ محمد فقیر سے ہوئی میں ان سے باتیں کررہا تھا پس منظر میں نالہ شور مچا رہاتھا جو شاید صرف مجھے سنائی دے رہا تھا یہ لوگ تو عادی تھے اس شور کے میں نے محمد فقیر سے پوچھا کہ وہاں اوپر آپ جنگلوں کی حفاظت کرتے ہیں کیا جنگلوں کو کوئی خطرہ ہے؟ خطرہ تو نہیں ہے مگر یہ قومی خزانہ ہے بہر حال بچانا ہے اسے میں نے پوچھا کیا لوگ چوری چھپے درخت کاٹتے ہیں نہیں چوری چھپے تو نہیں کاٹتے لیکن بعض لوگ قانون سے واقف نہیں ہیں وہ اس طرح کے کام کرتے ہیں آپ صرف موجودہ درختوں کو بچاتے ہیں یا نئے درخت بھی لگاتے ہیں؟ نئے درخت بھی لگاتے ہیں یہاں جگہ جگہ نرسریاں ہیں جہاں پودے اگائے جاتے ہیں زمین تیار کی جاتی ہے جہاں پھر شجر کاری ہوتی ہے یہ کام ہر موسم میں ہوتا ہے اور بلاناغہ ہوتا ہے محمد فقیر کی باتیں سن کر میں نے اوپر پہاڑوں پر نگاہ ڈالی چٹانوں کے پچھواڑے جنگل ہی جنگل کھڑے تھے اور چھدرے بادل ان میں تیر رہے تھے میں نے پوچھا ان جنگلوں میں درنداور پرند بھی ہیں؟جی بہت ہیں کون کون سے؟ مثلاً مرغ زریں ہے اس کی مونث شان ہے جنگلی بھیڑ ہے‘مارخور ہے اس طرح کافی جانور ہیں بعض کے تو ہمیں نام بھی نہیں معلوم۔
ایک اور مقام پر رضا علی عابدی رقم طراز ہیں کہ ہماری جیپ سکردو سے نکلی اور دریا کو چھوتی ہوئی چلی‘ رستے میں درختوں کے جھنڈ آئے‘ گاؤں آئے‘ ہوائی اڈا آیا اور سیاحوں کی بہشت شنگر یلا آئی‘ دریا گھاٹی میں داخل ہونے لگا اور سڑک بلند ہونے لگی کہ اچانک سامنے بڑا سا پل آگیا۔ یہاں ہماری جیپ روک لی گئی‘ اس کی تلاشی لی گئی‘ ڈر تھا کہ اس میں کہیں ہتھیار نہ ہوں‘ہتھیاروں کی و بابلتستان تک پہنچ گئی تھی۔ایک نوجوان جیپ کی تلاشی لینے میں مصروف تھا‘ میں نے باتوں باتوں میں اسے اپنا اتہ پتہ بتایا‘ میرا نام سننا تھا کہ اس نے تلاشی چھوڑی اور مجھے بھینچ کر سینے سے لگا لیا اور جب تک میں نے چائے نہیں پی لی‘ بسکٹ نہیں کھالئے اور بہت دیر تک مصافحہ نہیں کرلیا‘ اس نے مجھے جانے نہیں دیا‘ اتنی چھوٹی آنکھوں سے اتنی بہت سی محبت جھلک سکتی تھی‘ اس کا احساس مجھے بلتستان جا کر ہوا اور اتنی تنگ‘ دشوار گزار‘سنگلاخ اور لڑھکتی چٹانوں میں پسی جانے والی گھاٹی میں اتنی علی‘ عمدہ‘ محفوظ اور رواں سڑک بنائی جاسکتی ہے‘ اس کا علم بھی مجھے بلتستان پہنچ کر ہوا۔اب جو ہماری جیپ آگے چلی‘ انسان اور اس کے ہنر اور اس کے عزائم کے بھید کھلتے گئے‘ ہمالیہ کے پار قراقرم کے برف سے ڈھکے پہاڑ سراٹھائے کھڑے تھے‘جن میں پاکستان کے انجینئروں اور فوجیوں نے یہ ایسی سڑک تراشی ہے کہ اس پر چلتے ہوئے دل دہلتا جاتا ہے اور عقل داد دیئے جاتی ہے۔