دوستی پرخلوص اور بے لوث ہوتو یادگار ہی رہتی ہے‘ معروف براڈ کاسٹر آغا ناصر اپنے ایک دوست سے متعلق لکھتے ہیں کہ وہ ہری پور ہزارہ کے رہنے والے ہیں اور بے حد ذہین‘بذلہ سنج انسان بھی ہیں جس بات کا ذکر میں بطور خاص کرنا چاہتا ہوں‘مجھے یہ علم نہیں کہ ایسا کیوں اور کیسے ہوتا ہے پچھلے تیس سال کے عرصے میں جب بھی میں کسی بڑی بیماری میں مبتلا ہوا جو میری زندگی اور موت سے تعلق رکھتی تھی تو یہ بہت عجیب سی بات ہے کہ ایسے موقعوں پر یہ فرشتہ صفت انسان جانے کہاں سے نمودار ہوجاتا تھا یہ کوئی ایک واقعہ نہیں 1977ء میں میرا ایک بہت بڑا آپریشن ہوا 1980ء میں ایک بڑے حادثے سے دوچار ہوا اور ڈاکٹروں نے میرے بچنے کی ساری امیدیں چھوڑ دیں اسی طرح 1985ء میں جب شدید ڈپریشن کا شکار ہوا اس وقت مجھے مشورہ دیاگیا کہ آپ کی زندگی اسی صورت میں بچ سکتی ہے جب آپ ملک سے باہر جاکر علاج کروائیں‘ پھر 1996ء میں دل کے عارضے سے دوچار ہونا پڑا اور آخر کار انجیو پلاسٹی کے مرحلے سے گزرا۔
یہ پہلا موقع تھا جب میرا دوست وہاں موجود نہ تھا لہٰذا میں نے ہسپتال کے سینئر ڈاکٹر سے کہہ دیا کہ میں اپنے دوست خالد لطیف کی موجودگی کے بغیر یہ آپریشن نہیں کرواؤں گا خالد لطیف ان دنوں اپنی خاصی پریشانی میں مبتلا تھے انچارج ڈاکٹر میری بات سن کر مسکرایا اور اس نے کہا کہ وہ دوست کل رات سے آئے ہوئے ہیں اور اسوقت برآمدے میں بیٹھے آپ سے ملنے کا انتظار کر رہے ہیں یہ سننا تھا کہ میرا موڈ یکسر تبدیل ہوگیامیں پرسکون ہو گیا اور میں نے ڈاکٹر سے کہا۔ ’اب میں آپریشن کے لئے بالکل تیار ہوں‘۔ قصہ مختصر خالد آئے‘چار گھنٹے ٹھہرے اور جب میرا کامیاب آپریشن ختم ہوا تو مجھ سے ملے اور اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں کہا۔’اچھا آغا! اگلی بیماری تک کے لئے خدا حافظ“یہ سب کچھ کیسے ہوتا ہے‘کون کرتا ہے اور اس کے اسباب کیا ہیں میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا میرے خاندان کے لوگوں کی خالد سے ملاقات بڑے دلچسپ انداز میں ہوئی تھی۔
میں لاہور سے تبادلہ ہوکر راولپنڈی آگیا تھا ایک اتوار میں اور میرے گھر والے لارنس پور گئے تاکہ وہاں سے گرم کپڑے خرید سکیں خالد لطیف لارنس پور دکان کے منیجر کو جانتے تھے اور اس روز وہاں آئے تھے شام کو جب ہم لوٹ رہے تھے تو میرے دونوں بچے اور بیوی ساتھ تھے اچانک راستے میں کار میں کوئی خرابی پیدا ہوگئی اور باوجود کوشش اس کے صحیح ہونے کی کوئی صورت نہ نکل سکی‘ بہر حال قصہ مختصر خالد نے آکر ہمیں اس مشکل سے نکالااور کہا کہ میں تمہارے ساتھ چلونگا چونکہ آپ لوگوں کیلئے یہ علاقہ بالکل اجنبی ہے سو وہ بھی ہمارے ساتھ ہوگیاکچھ دور جاکر گاڑی پھر خراب ہوگئی اب خالد نے کچھ سبب کرکراکے ایک ٹریکٹر کرائے پر حاصل کیا اور اسے خود ڈرائیوکیا اور ہم سب پیچھے بیٹھ گئے یہ لمبا سفر تھا لارنس پورسے حسن ابدال تک خالد ٹریکٹر چلاتے رہے اور ہم اس ایڈونچر سے محظوظ ہوتے رہے۔
ایک اور مقام پر آغا ناصر لکھتے ہیں کہ اداجعفری اور نور الحسن جعفری سے میرا تعارف عالی بھائی نے کرایا تھا‘شاید میں اور صفیہ ان دونوں کو پسند آ گئے‘آناً فاناً ہمارے تعلقات اس قدربڑھ گئے کہ جیسے ہم ایک دوسرے کوبرسوں سے جانتے ہیں اداجعفری بلاشبہ اردو کی سب سے بڑی خاتون شاعر تھیں اور نور بھائی حکومت پاکستان کے مالیات کے محکمہ میں ایک بڑے افسر تھے‘ ہماری بے تکلفی اتنی بڑھ گئی کہ ایک روز اداباجی نے بتایا کہ وہ اسلام آباد کے خشک اوربے جان شہر میں کچھ رنگ پیدا کرنے کیلئے شعر و ادب کی محفلوں کا اہتمام کرنے کی کچھ تجاوز پر غور کر رہی ہیں ان کا خیال تھا اس شہر میں جو سرکاری ملازمین کا شہر ہے جہاں بازاروں میں رونق اور سڑکوں پر ٹریفک کم ہے اور لوگوں کے پاس خالی وقت زیادہ ہے‘کچھ کیا جائے۔