پاکستان میں ٹیلی ویژن کے آغاز پر انتہائی مشکل حالات میں کام کرنا پڑتا تھا پی ٹی وی کے سابق سربراہ آغا ناصر اس حوالے سے اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ان دنوں کوئیز پروگراموں کا بہت زور تھا انکی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے میں نے سوچا میں بھی اس میں اپنا حصہ ڈال دو ں لہٰذا میں نے کوئیز ڈرامہ‘ پیش کرنے کا ارادہ کیا اس کا نام تھا غور سے دیکھئے‘ پروگرام کچھ ایسے تھے کہ ابتدائی حصے میں مائم یعنی خاموش اداکاری کے طور پر ایک منظر پیش کیا جاتا جس میں ایک چھوٹی سی کہانی میں اپنی حرکات وسکنات کے ذریعے اداکاری کی جاتی منظر کے اختتام پر کمپیئر دس سوال پوچھتا تھا جس سے دیکھنے والوں کے قوت مشاہدہ کا امتحان مقصود ہوتا جو سب سے زیادہ صحیح جواب دیتا وہ انعام کا مستحق سمجھا جاتا مثلاً ایک پروگرام جس میں ننھا کو یہ رول کرنے کے لئے مدعو کیاگیا تھا کچھ اس طرح تھا۔ ننھا دروازہ کھول کر داخل ہوتا ہے ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جس میں ایک لکھنے کی میز‘ ایک کرسی اور ساتھ ایک مسہری ہے دائیں جانب کی دیوار پر کپڑے لٹکانے کی کھونٹیاں لگی ہیں ننھا گھبرایا داخل ہوتا ہے اپنے کوٹ کے بٹن کھولتا ہے اور کوٹ کھونٹی پر لٹکاتا ہے پھر لکھنے کی میز کی طرف آکر کوٹ کی جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالتا ہے اور ادھر ادھر ماچس ڈھونڈنے لگتا ہے پھر اٹھ کر کھڑکی کے پاس آتا ہے کھونٹی پر لٹکے کپڑوں کو جاکر ٹٹولتا ہے ایک کوٹ جو وہاں لٹکا ہے اس کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر ماچس ڈھونڈتا ہے پھرزمین پر اس کی نظر پڑتی ہے جہاں ماچس پڑی ہے اب وہ سگریٹ کا پیکٹ ڈھونڈ نے لگتا ہے جواسکے ہاتھ ہی میں ہے تھوڑی دیر بعد اسے اپنی حماقت کا احساس ہوتا ہے اور وہ کھسیانا ہوکر ہنستا ہے سگریٹ نکال کر سلگاتا ہے اور جلتی ہوئی تیلی کھڑکی سے باہر پھینکتا ہے مگر تیلی کھڑکی کے پردے میں اٹک جاتی ہے.
ننھا کرسی پر بیٹھ کر بہت خوش خوش سگریٹ کے کش لگاتا ہے کہ اچانک اسے کچھ جلنے کی بو آتی ہے وہ پلٹ کر دیکھتا ہے تو پردے میں آگ لگی ہوئی ہے اس منظر کے بارے میں جو سوال پوچھے گئے وہ کچھ اس قسم کے تھے۔جب ننھا کمرے میں داخل ہوا تو دروازہ کھلا ہوا تھا یا بند تھا؟ننھے نے کوٹ اتارتے وقت کتنے بٹن کھولے تھے؟ جب اس نے کوٹ کھونٹی پر لٹکایا تو وہاں پہلے سے ایک اور کوٹ لٹکا ہوا تھا یا نہیں؟ ننھے نے کون سی جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا تھا‘دائیں سے یا بائیں سے……؟وغیرہ وغیرہ مختصر دورانئے کا یہ پہلا ’ڈرامائی کوئز‘ تھا جسے بہت پسند کیاگیا‘ٹیلیویژن کو معرض وجود میں آئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا پروگرام پیش کرنے والوں‘لکھنے والوں‘حصہ لینے والوں کا ایک چھوٹا سا خاندان تھا جس کے سارے افراد ایک ہی بندھن میں بندھے ہوئے تھے‘ سب کی ایک لگن تھی ایک ہی مشن تھاپاکستان میں ٹیلیویژن کے تجربے کو کامیاب بنانے کا مشن کام کرنے والوں میں پرائیویٹ سیکٹر کے لوگ بھی تھے این ای سی گروپ کے لوگ بھی اور سرکاری ملازمین بھی جن میں سے اکثر کا تعلق ریڈیو پاکستان سے تھا لاہور کے پائلٹ سٹیشن پر یہ سب لوگ مل جل کر کام کرتے تھے یہ ایک خاندان تھا ہر شخص ایک دوسرے کا نام جانتا تھا ہر آدمی ہر کام کرتا تھا کوئی یہ نہیں پوچھتاتھا اس کا عہدہ کیا ہے یا اس کے فرائض کیا ہیں ایسی لگن اور ایسا جنون تھا جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ایک اور مقام پر آغا ناصر دورہ روس کی داستان میں لکھتے ہیں کہ امریکہ کے سفر کے تقریباً بیس بائیس سال بعد میری یہ آرزو بھی پوری ہو گئی.
یہ ایک ایسا سفر تھا جس کومیں کبھی بھلا نہیں سکتا1989ء میں مجھے ماسکو میں ہونے والے ”راڈھوگا“ فلم فیسٹیول کی انٹرنیشنل جیوری میں شرکت کیلئے ماسکو مدعو کیا گیا تھا‘ یہ وہ سال تھا جب دنیا میں سردی کے گزشتہ سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے تھے‘ ٹائم میگزین نے لکھا تھا کہ شاید کرہ ارض”برفانی دور“ کی طرف واپس لوٹنے والا ہے‘ جنوری کے مہینے میں جب ماسکو میں درجہ حرارت منفی پچاس تک پہنچ گیا تھا دارالحکومت پہنچنا تھا‘ روس جانے کے خیال ہی سے دل میں بڑی excitement پیدا ہو گئی تھی‘ سوشلسٹ سوویت یونین دیکھنے کی میری بڑی تمنا تھی‘ میں نے جانے سے پہلے اپنے ان دوستوں سے جنہوں نے سوویت روس دیکھا ہوا تھا دریافت کیا کہ سردی سے بچنے کیلئے کیا کرنا ہو گا‘ ہر ایک نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا مگر سب کا یہ کہنا تھا کہ اس سال کی سردی کے بارے میں ہم کوئی مشورہ نہیں دے سکتے‘راڈھوگا فلم فیسٹیول میں تقریباً دنیا کے تمام ٹیلی ویژن نیٹ ورک حصہ لے رہے تھے ان کا تعلق مشرقی یورپ کے ملکوں سے تھا‘ جیوری کے ممبران کو ٹھہرانے کا انتظام ماسکو کے سب سے بڑے ہوٹل”روسیا“ میں کیا گیا تھا.
یہ ہوٹل کئی ہزار کمروں پر مشتمل ہے اور اتنا بڑا ہے کہ ایک ونگ سے دوسرے ونگ تک جانے کیلئے چھوٹی بسوں سے جانا ہوتا ہے‘ ہوٹل میں چیک ان ہونے کے بعد ہمیں بہت سی ضروری ہدایات دی گئیں ہمیں بتایاگیا کہ ان دونوں ماسکو کا درجہ حرارت رات کو منفی 50 تک پہنچ جاتاہے‘ سردی کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ ہوٹل کا ہیٹنگ سسٹم کبھی کبھی ناکام ہو جاتا ہے‘ اس لئے مناسب یہی ہے کہ ہوٹل کے مہمان اپنے اپنے کمروں میں ٹھہریں اور ہرگزہرگز ہوٹل سے باہر جانے کا ارادہ نہ کریں‘جیوری کے ممبران میں بہت سے مرد اور عورتیں شامل تھے جن کا تعلق ہنگری‘ پولینڈ‘ چیکوسلاویا‘آسٹریا‘ فن لینڈ اور سوویت یونین کی بہت سی ریاستوں سے تھا‘ میں نے اس سے قبل بہت سے ملکوں میں ٹی وی فیسٹیول اور مقابلے دیکھے تھے مگر یہ تجربہ اپنی نوعیت کا بالکل انوکھا تجربہ تھا‘ مشرقی یورپ کے ٹی وی نیٹ ورکس جو آرٹ ورک اور سینما ٹیکنالوجی میں خاص مہارت رکھتے تھے‘ موضوعات کے لحاظ سے بھی دکھائی جانے والی ڈاکومینٹری اورشارٹ فلم مختلف انداز اور حسن کاری کے اعلیٰ نمونے تھیں جیوری کے ممبر بھی ایسے لوگ تھے جن میں سے کسی سے کبھی میری ملاقات نہیں ہوئی تھی.
یہ سب سوشلسٹ ملکوں سے آئے تھے لہٰذا اپنی اپنی فلموں کو بڑے جوش وولولے کیساتھ پروموٹ کرتے تھے یہ سب مسلسل دس روز تک دیکھنے کے بعد اول‘ دوم اور سوئم آنے والی فلموں کوبڑے جوش وولوے کے ساتھ پروموٹ کرتے تھے یہ سب مسلسل دس روز تک دیکھنے کے بعد اول‘ دوم اور سوئم آنے والی فلموں کا اعلان کیاگیا اور پروڈیوسروں کو کانسی‘ چاندی اور سونے کے ایوارڈز سے نوازا گیا‘اس دوران بیرونی ملکوں کے مہمانوں کیلئے ہرشام کسی نا کسی نت نئے تفریحی پروگرام کااہتمام کیا گیا تھا ان کلچرل پروگراموں میں سوویت یونین کی ساری ریاستوں نے حصہ لیا‘ میں نے ایسی رنگا رنگ ثقافت اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔