اپنے ہاتھوں

مشہور مصنف اور ادیب اشفاق احمد ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بچپن میں ہمارے قصبے میں ایک شوکت صاحب تھے وہ ابتدائی قسم کا ڈینٹسٹری کا امتحان پاس کرکے آئے تھے اور انہوں نے گاؤں میں کلینک کھولا تھا وہ مصنوعی دانت تیار کرتے تھے اور ڈاکٹر شوکت نے گاؤں میں پہلی بار مصنوعی دانت متعارف کروائے وہاں گاؤں میں ایک صاحب  تھے۔ انہوں نے ڈاکٹرشوکت سے مصنوعی دانت لگوائے اور تمام کے تمام دانت نئے لگوائے اور وہ یہ مہنگا لیکن آرام دہ سودا کرکے مزے سے گھومتے پھرتے رہے لیکن رقم ادا نہ کی۔ایک دن ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ  صاحب میرے پیسے ادا کریں لیکن اس دور میں ڈیڑھ دو سو کی رقم ادا کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں تھا ڈاکٹر صاحب ان سے روز صبح سویرے رقم کا تقاضا کرتے تھے اور وہ آج کل کے وعدے پر ٹرخاتے رہتے تھے لیکن رقم دے نہیں پاتے تھے ایک روز دوپہر کے وقت ڈاکٹر شوکت صاحب غصے کے عالم میں  ان کے پاس آئے اور وہاں توتو میں میں شروع ہوگئی اور وہ کہنے لگے کہ آپ میرے پیسے ادا کریں ورنہ میں نے آپ کو یہ جو ”بیڑھ“ (بتیسی)لگایا ہے وہ واپس کردیں وہ  صاحب بھی علاقے کے آخر مالک تھے غصہ کھا گئے چنانچہ توتو میں میں کے بعد ان دونوں میں باقاعدہ ہاتھاپائی کی نوبت بھی آن پہنچی اور اس کے بعد ڈاکٹر شوکت بڑی مایوسی کے عالم میں واپس اپنے کلینک پر پہنچ گئے ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں مشینیں ٗآلات اوریہ دیکھنے کہ مصنوعی دانت کیسے بنتے ہیں میں بڑے شوق سے چلا جاتا تھا۔ اس وقت میں فرسٹ ائیر میں پڑھتا تھا میں وہاں بیٹھا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنا بازو میرے آگے کرکے کہا”یہ دیکھ رہے ہو اس سے اپنا قرض مانگنے گیا اور اس ظالم نے مجھے”دندی“ کاٹ لی۔اس نے کہا کہ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس نے ”دندی“ بھی ان دانتوں سے کاٹی جو میں نے اسے بناکر دئیے تھے ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ اگر میں نے اس کو دانت نہ بناکر دئیے ہوتے تو وہ مجھے کاٹ نہیں سکتا تھا۔ ایک اور مقام پر اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ علم حاصل کرنے کیلئے جب ہم بھائی اپنے گاؤں سے لاہور آئے تو ہمارے اباجی نے ایک گھر لے کر دیا، فلیمنگ روڈ پر۔ وہاں اختر شیرانی رہتے تھے‘ میں تو چونکہ فرسٹ ایئر کا طالبعلم تھا‘ اسلئے ان کے نام سے یاانکے کام سے اتنا آشنا نہیں تھا لیکن میرے بڑے بھائی ان کو جانتے تھے اور ان کی بڑی قدر و منزلت کرتے تھے‘بہرحال جہاں ہمارے اباجی نے اور بہت ساری مہربانیاں کی تھیں‘ وہاں یہ کہ ایک خانساماں بھی دیا تھا جو ہمارا کھانا پکاتا تھا۔ اس کا نام عبدل تھا۔ عبدل کو زندگی میں دو شوق بڑے تھے‘ ایک تو انگریزی بولنے کا‘ انگریزی تعلیم حاصل کرنے کا جیسے آج کل بہت زیادہ انگریزی ہی کو علم سمجھا جاتا ہے اور انگریزی کے حصول کیلئے ہی جان لڑائی جاتی ہے۔ عبدل کو بھی اس کا بہت بڑا شوق تھا۔ دوسرے اس کو اچھی کنوینس کا بڑا چسکا تھا‘چنانچہ کبھی اسے بھائی خط پوسٹ کرنے کیلئے جی پی او بھیجتے تو وہ کہتا تھا، اگر آپ اپنی سائیکل دے دیں تو میں بڑی خوشی سے جاؤں گا میں اس کی مستعدی سے بہت خوش تھا کہ یہ جو اپنی وہیکل ہے اس کو اتنے شوق سے اور اتنی مستعدی سے استعمال کرتا ہے۔ ایک مرتبہ اتفاق ایسا ہوا کہ میں نے دیکھا بازار میں وہ واپس آرہا تھا‘ جی پی او سے خط پوسٹ کرکے‘ اس طرح کہ سائیکل کا ہینڈل اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے اور اس کے ساتھ بڑی تیزی سے بھاگتا ہوا آرہا تھا۔ اس کے اوپر سوار نہیں تھا۔ تو میں نے اسے روک لیا‘ میں نے کہا‘عبدل یہ کیا کہنے لگا ”میں بھاجی دا خط پاکے آیاں تے جلدی واپس آیاں۔“ میں نے کہا تو سائیکل لے کر گیا تھا۔ کہنے لگا ہاں جی۔ تو میں نے کہا‘ اس پر سوار کیوں نہیں ہوا۔ کہنے لگا، عزت کی خاطر لے کر جاتا ہوں۔ سائیکل مجھے چلانی نہیں آتی۔ تو آج بھی تقریباً ہمارا معاملہ عبدل جیسا ہی ہے۔