مشاہدات و تجربات 

مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد اپنے مشاہدات کو قلمبند کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں ایک بڑاگول چکر ہے وہاں ایک بڈھا بابا ایک نیم کے پیڑ کے نیچے ٹھیلا لگاتا ہے‘ اس کیساتھ اس کا ایک بیٹا ہوتا ہے جو اس کی مدد کرتا ہے‘میری چھوٹی آپا ایک روز مجھے کہنے لگیں کہ میں ذرا اس ٹھیلے سے سبزی لے لوں‘اس بڈھے بابے کے لڑکے نے آپا کو کچھ گوبھی‘ بینگن اور کچھ ٹماٹر بڑی احتیاط کے ساتھ دیئے اور آپاکی پسند اور کہنے کے مطابق الگ الگ لفافوں میں ڈال کے وہ رکھتارہا۔ اب وہ لڑکا آپا جی کے پرس کی جانب دیکھ رہا ہے کہ وہ اسے پیسے دیں گی‘لیکن آپا ایک چکر کاٹ کے اس لڑکے باپ کی طرف چلی گئیں گو یہ ایک معمولی اور عام سی بات تھی لیکن لڑکے کے چہرے کے تاثرات کیا تھے یہ آپ بھی بخوبی جان سکتے ہیں اور کوئی صاحب دل جان سکتا ہے کہ اس بچے کے دل میں کیا بیتی ہو گی‘اس بات کا میرے دل پر بڑا بوجھ تھا لیکن میں اس لڑکے سے زیادتی کو Compensate کیسے کر سکتا تھا۔ایک دن میں اپنی بڑی آپا کے ساتھ گاڑی میں جا رہا تھا آپا نے اسی ٹھیلے کو دیکھ کر کہا کہ رکواس ٹھیلے والے کے پاس تو کتنی اچھی سٹرابری اور شہتوت ہیں وہ لے لیتے ہیں۔
 آپا نے ٹھیلے والے سے کہا کہ کالے شہتوت ذرا کھٹے ہوتے ہیں‘ اس لڑکے نے کہا کہ نہیں جی یہ بہت میٹھے ہیں۔ وہ شہتوت بھی آپا نے لیے‘ آپا اسے پچاس روپے کا ایک نوٹ دیا اور ساتھ پوچھا کہ کتنے روپے ہوئے۔ اس نے کہا کہ اٹھارہ روپے اورکچھ پیسے ہوئے ہیں اور بڑی آپا نے اس لڑکے کو ہی پیسے دے دیئے کیونکہ اس نے ہی سروس کی تھی۔ اس لڑکے نے فٹافٹ ٹھیلے پر سے رکھی بوری کا پہلو اٹھایا اوربقایاریز گاری نکال کر آپا کو دے دی۔ میں یہاں پھر دل کی اور دل میں پنہاں شفقت کے اس خانے کی بات کرتا ہوں جو خانہ کسی کسی کو ہی نصیب ہوتا ہے۔یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ آپا اسے کہنے لگیں کاکا تو نے تو کمال کر دیا۔ فوراً حساب کرکے پیسے دیئے مجھے تو کافی وقت لگ جاتا تو بڑے کمال کا بچہ ہے۔ یہ تو نے کہاں سے سیکھا تو اس نے کہا کہ جی ہمارا تو یہ روزکا کام ہے۔
ابا سے دیکھا ہے۔ایک اور مقام پر اشفاق احمد  لکھتے ہیں کہ میرا بیٹا سائیکالوجی میں ڈاکٹریٹ کرنے امریکہ گیا تو اس کی ڈاکٹریٹ میں ذرا دیر لگی میرے حساب سے تو میں ایک احساس والے باپ کی طرح ناراض ہوا کہ بھئی اتنی دیر کیوں لگائی ہے آپ لوگ بھی کبھی کبھی گھر میں ناراض ہوتے ہوں گے میں نے کہا کہ میں اس سے جا کے پوچھوں کہ کیا بات ہے‘ پچھلے سے پچھلے سال میں وہاں گیا ٗتو اس کے ٹیچر سے ملا ٗ تو انہوں نے کہا کہ نہیں ٗ یہ تو بڑا اچھا ہے ٗ کوئی شکایت نہیں ٗ بلکہ ہم تو یہ چاہیں گے کہ یہ اور کچھ دیر تک ہمارے پاس رہے اور ہم اس سے کچھ فائدہ اٹھالیں یوں میری تسلی ہوگئی۔
یونیورسٹی سے گھر جاتے ہوئے میں اس کی کار میں بیٹھا تھا اور وہ کار چلا رہا تھا ہماری گاڑی سے آگے ایک اور شخص گاڑی لے جا رہا تھا اور وہ آہستہ آہستہ چلا جا رہا تھا اور ہچکولے بھی کھا رہا تھا تو میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ ہارن بجاؤ اور اس کو ایک طرف کرو‘تواس نے کہا کہ ابو میں ابھی کچھ بندوبست کرتا ہوں ٗ تو میں نے کہا کہ بھئی آپ اس کو ہارن دیں تو وہ کہنے لگا کہ ابو یہاں ہار ن دینے کا رواج نہیں ہے ٗ میں نے کہا کہ وہ تو Silence Zoneہوتا ہے یہ تو ویرانہ ہے تو اس نے کہا کہ بس ہارن نہیں دیتے ہیں نا۔ میں نے کہا کہ کیوں نہیں دیتے۔ کہنے لگا کہ میں اس لئے نہیں دیتا ہوں کہ یہ آگے جانے والا مجھ سے عمر میں ذرا بڑا ہے بہت ممکن ہے کہ اس نے نئی گاڑی چلانی سیکھی ہو اور میں اگر ہارن دوں گا تو وہ گھبرا جائے گا اور اس کا نقصان ہوگا۔
 تمہیں اس سے کیا۔ بجا ہارن اور اس کو ہٹا۔ کہنے لگا کہ نہیں …… میں معافی چاہتا ہوں ابو۔یہ ذرا مشکل ہے میں یہ اسلئے نہیں کر سکتا کہ یہ میرا کولیگ ہے اوہ میں نے کہا ٗ اچھا۔ کیا یہ یونیورسٹی میں تمہارے ساتھ پڑھتا ہے یا پڑھاتا ہے اس نے کہا کہ نہیں پڑھتا پڑھاتا نہیں ہے میں نے کہا کہ یہ تمہارا کلاس فیلو ہے؟تو اس نے کہا کہ نہیں بلکہ یہ میرا روڈ فیلو ہے ہم ایک ہی سڑک پر جا رہے ہیں اس رشتے سے ہم ایک دوسرے کے فیلو ہیں ہم اسے تنگ نہیں کرسکتے۔