ہر دعوت میں عموماً دو طرح کے لوگ شرکت کرتے ہیں ایک وہ جو کھاتے کم ہیں اور باتیں بہت کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو کھاتے بہت ہیں اور باتیں کم کرتے ہیں یا بالکل نہیں کرتے اول الذکر جماعت میں وہ لوگ شامل ہیں جن کے بغیر شہر کی کوئی دعوت‘دعوت کہی ہی نہیں جاسکتی موخرالذکر جماعت ان لوگوں پر مشتمل ہے جو مدعو کرنے والے کے دوست یا رشتے دار ہوتے ہیں ان دونوں جماعتوں میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ پہلی جماعت تقریباً ہر دعوت میں موجود ہوتی ہے کیونکہ دعوتوں میں شامل ہونا اس جماعت کا مستقل شغل ہے اس جماعت کے افراد ایک خاص انداز سے بات کرتے ہیں یہ لوگ صرف اپنی جماعت کے افراد سے بات چیت کرتے ہیں اور دوسری جماعت کے لوگوں کی طرف یوں گھور گھور کر دیکھتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں ’تم جیسے رینگنے والے کیڑوں کو اس دعوت میں آنے کا کیا حق ہے؟ عموماً دعوت کے شروع ہونے سے پہلے ان لوگوں کا دل پسند موضوع سیاست یا تجارت ہوتا ہے کھانے کی میز کے سامنے بیٹھ کر ان کی گفتگو کا موضوع اکثر اپنی ذات یا ’وہ بیماری‘ ہوتی ہے جس میں یہ مبتلاہیں۔چائے پیجئے‘نہیں صاحب شکریہ ڈاکٹر ایکس نے چائے بند کررکھی ہے ’تکلیف کیا ہے‘ کچھ نہیں ذیابیطس نے پھر آن دبایا ہے آج کل انجکشن لے رہا ہوں یہ تو آپ کی پرانی شکایت ہے ’جی ہاں پچھلے دنوں ڈاکٹرزیڈ کے علاج سے کچھ افاقہ ہوا تھا پھر تھوڑی سی بدپرہیزی کرلی اور پرسوں سے تکلیف بڑھ گئی۔آپ ہومیو پیتھک علاج کیجئے دس برس ہوئے مجھے بھی یہ ہی شکایت تھی میں نے ڈاکٹر ایم سے مشورہ کیا‘ اب ذرا دوسری جماعت کی طرف آئیے اس میں طرح طرح کے لوگ شامل ہیں کچھ اس جماعت بیشتر لوگ گفتار کے نہیں کردار کے غازی ہوتے ہیں ان کی تمام تر توجہ کھانے پینے کی چیزوں پر مرکوز ہوتی ہے آپ نے ان سے گفتگو کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے آپ کی بات سنی ان سنی کرکے آہستہ سے فرمایا ’سموسوں کی پلیٹ ذرا ادھر سرکادیجئے‘آپ نے پوچھا مزاج تو اچھے ہیں انہوں نے جواب دیا’تکلیف معاف اگر آپ رس گلے نہیں کھارہے تو ادھر دے دیجئے۔(کنہیالال کپور کی کتاب نوک نشتر سے اقتباس)