ناقابل فراموش انٹرویو 

قدرت اللہ شہاب کی شہاب نامہ ان کی سرگرم زندگی کے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ہے۔ ایک مقام پر وہ لکھتے ہیں کہ اس نے منہ اٹھا کر میری طرف دیکھا‘ میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب اُمڈ رہا تھا‘ اس نے اپنے جامنی رنگ کے دوپٹے کے پلو سے میرے آنسو پونچھے اور بے حد غیر جذباتی انداز میں اپنا سلسلہ کلام جاری رکھا۔ ’اس ملک میں ہر شخص اپنے اپنے کام میں مصروف ہوتا ہے‘ اس لئے میرے جنازہ پر کسی کو نہ بلانا‘ یہاں پر تم ہو‘ ثاقب ہے‘ خالد ہے‘ زہرہ ہے‘ آپاعابدہ ہے‘ خالد کے چند مسلمان ڈاکٹر دوست ہیں‘ بس اتنا ہی کافی ہے‘اب میں سنبھل کر بیٹھ گیا۔ ’بزنس آخر بزنس ہے‘ میں نے کہا ’جرمنی سے تنویر احمد خان اور پیرس سے نسیم انور بیگ شاید آجائیں‘ ان کے متعلق کیا حکم ہے؟‘’وہ آجائیں تو ضرور آئیں‘ اس نے اجازت دے دی’وہ بھی تو اپنے ہی لوگ ہیں‘لیکن پاکستان سے ہر گز کوئی نہ آئے‘’وہ کیوں؟‘ میں نے پوچھاوہ بولی’ایک دو عزیز جو استطاعت رکھتے ہیں‘ ضرور آجائیں گے‘ لیکن دوسرے بہت سے عزیز جن میں آنے کی تڑپ تو ہے‘ لیکن آنہیں سکتے خواہ مخواہ ندامت محسوس کریں گے‘ ٹھیک ہے نا؟‘’ہاں ایک عرض اور ہے‘ اس نے کہا ’اپنے ہاتھوں کے ناخن بھی خود کاٹنا سیکھ لو‘ دیکھو اس چھوٹی سی عمر میں بھی ثاقب کیسی خوبی سے اپنے ناخن کاٹ لیتا ہے‘تم سے اتنا بھی نہیں ہوتا‘یہ کہہ کر وہ اٹھی‘ اپنا پرس کھولا‘ ایک چھوٹی سی قینچی نکالی اور بولی ’لاؤ‘آج پھر میں تمہارے ناخن تراش دوں‘اس کی باتوں میں الوداعیت کا جو پیغام جھلک رہا تھا اس نے مجھے بیتاب کردیا میں نے کہا ’میڈم اٹھو‘ ہمارے ارد گرد جو بے شمار لوگ کھیل کود رہے ہیں‘ وہ کیا سمجھیں گے کہ یہ بڈھا بڈھی کس طرح کی عاشقی میں مبتلا ہورہے ہیں‘اس نے میرے بالوں میں اپنی انگلیوں سے آخری بار کنگھی کی اور بولی ’تمہارے بال کتنے سفید ہورہے ہیں میں نے اتنی بار کہا ہے کہ مہینے میں کم از کم ایک بار کلر گلو کا شیمپو کرلیا کرو‘ لیکن تم میری کوئی بات نہیں مانتے‘ میں خاموش رہا۔یہ ہمارا آخری انٹرویو تھا‘اٹھارہ سال کی ازدواجی زندگی میں ہم نے کبھی ایک دوسرے کیساتھ اتنی ڈھیر ساری باتیں نہ کی تھیں‘ دوستوں‘ یاروں اور عزیزوں کیساتھ بیٹھ کر ہم کئی کئی گھنٹے ہی ہی‘ ہاہا کرلیتے تھے لیکن اکیلے میں ہم ے اتنی دلجمعی کیساتھ اتنے موضوعات پر کبھی اتنی طویل گفتگو نہ کی تھی۔ایک اور مقام پر قدرت اللہ شہاب علامہ اقبال کے ملازم علی بخش سے اپنی ہونے والی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’میں نے عزم کر رکھا تھا کہ میں خود علی بخش سے حضرت علامہ کے بارے میں کوئی سوال نہیں کرونگا اگر واقعی وہ علی بخش کی زندگی کا ایک جزو ہیں تو یہ جوہر خود بخود عشق اور مشک کی طرح ظاہر ہو کے رہے گا‘ میری توقع پوری ہوتی ہے اور تھوڑی سی پریشان کن خاموشی کے بعد علی بخش مجھے یوں گھورنے لگتا ہے کہ یہ عجیب شخص ہے جو ڈاکٹر صاحب کی کوئی بات نہیں کرتا‘ شیخو پورہ سے گزرتے ہوئے علی بخش کو یاد آتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک بار یہاں بھی آئے تھے یہاں پر ایک مسلمان تحصیلدار تھے جو ڈاکٹر صاحب کے پکے مرید تھے انہوں نے دعوت دی تھی ڈاکٹرصاحب کو پلاؤ اور سیخی کباب  بہت پسند تھے آموں کا بھی بڑا شوق تھا وفات سے کوئی چھ برس پہلے جب ان کا گلا پہلی بار بیٹھا توکھانا پینا بہت کم ہوگیا۔ علی بخش کا ذہن بڑی  تیزی سے اپنے مرکز کے گرد گھوم رہا ہے اور وہ بڑی سادگی سے ڈاکٹر صاحب کی باتیں سناتا جاتا ہے ان باتوں میں قصوں اور کہانیوں کا رنگ نہیں بلکہ ایک نشے کی سی کیفیت ہے جب تک علی بخش کا یہ نشہ پورانہیں ہوتا غالباً اسے ذہنی اور روحانی تسکین نہیں ملتی علی بخش کا موڈ بدلنے کے لئے میں بھی اس سے ایک سوال کر ہی بیٹھتا ہوں حاجی صاحب کیا آپ کو ڈاکٹر صاحب کے کچھ شعر یاد ہیں؟ علی بخش ہنس کرٹالتا ہے میں تو ان پڑھ جاہل ہوں مجھے ان باتوں کی بھلا کیا عقل‘میں نہیں مانتا؟ میں نے اصرار کیا آپ کو ضرور کچھ یاد ہوگاکبھی اے حکیکت منتجر والا کچھ کچھ یاد ہے ڈاکٹر صاحب اس کو خود بھی بہت کنگنایا کرتے تھے‘ڈاکٹر صاحب بڑے درویش آدمی تھے گھر کے خرچ کا حساب کتاب میرے پاس رہتا تھا میں بھی بڑی کفایت سے کام لیتا تھا انکا پیسہ ضائع کرنے سے مجھے بڑی تکلیف ہوتی تھی اکثر اوقات ریل کے سفر کے دوران میں کئی کئی سٹیشن بھوکا رہتا تھا کیونکہ وہاں روٹی مہنگی ملتی تھی لیکن ڈاکٹر صاحب ناراض ہو جاتے تھے کہاکرتے تھے علی بخش انسان کو ہمیشہ وقت کی ضرورت کے مطابق چلنا چاہئے خواہ مخواہ ایسے ہی بھوکے نہ رہاکرو۔قدرت اللہ شہاب ایک اور واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جہاں تک چھوٹی صنعتوں کا تعلق ہے‘اس زمانے میں پنجاب میں بجلی سے چلنے والی کھڈیوں اور آرٹ سلک کی گرم بازاری تھی جسے دیکھو اسکے سر میں پاور لوم کا پرمٹ حاصل کرنیکا سودا سمایا ہوا تھا اسی دھماچوکڑی میں اگر کوئی سب سے پیچھے تھا تو وہ بیچارا پشتینی نورباف تھا جسکے آباؤاجداد صدیوں سے کھڈیوں کی دستکاری کیساتھ وابستہ چلے آرہے تھے انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ سب سے پہلے ان لوگوں کی ضروریات کو پورا کیا جاتا اور اسکے بعد نئے آنیوالوں کی باری آتی رجسٹرار آف کوآپریٹو سوسائٹیز کیساتھ ملکر ہمارے محکمے نے اس سلسلے میں تھوڑی بہت کوشش بھی کی‘لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کسی نے نہ سنی‘پاور لوم کے پرمٹ مانگنے والوں کا زیادہ زور پانچ پانچ پاور لوم حاصل کرنے پر تھا اس کیساتھ انہیں کافی مقدار میں آرٹ سلک یارن کا امپورٹ لائسنس مل جاتا تھا وزیرصاحبان جب دوروں سے واپس آتے تو انکے جلو میں پرمٹ لینے والوں کا ایک جم غفیر لاہور پہنچ جاتا تھا اس سارے عرصہ میں فقط ایک پرمٹ ایسا تھا جومیں نے اس قسم کی سفارش یا دباؤ کے بغیر جاری کیا تھا ایک روز ہمارے ممتاز ادیب اور دانشورمسٹر اے حمید مجھے ملنے آئے‘پاور لوم کی کرشمہ سازی کا چرچا سن کر انہیں بھی اس لائن میں قسمت آزمائی کا خیال آیا میں نے بڑی خاموشی سے انہیں پرمٹ دے دیا دوڈھائی ماہ بعد وہ پھرمیرے دفتر آئے اور بولے اس کاروبار کا جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ کام میرے بس کا نہیں ہے یہ کہہ کر انہوں نے پرمٹ مجھے واپس کردیا اسکی دلنشین تحریروں کی طرح اس صاحب طرز ادیب کا کردار بھی اتنا صاف اور بے داغ تھا کہ اس نے اپنے پرمٹ کو بلیک مارکیٹ میں بیچنا بھی گوارانہ کیا۔