بڑے لوگوں کی بڑی باتیں 

مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ جب میں لکھنے لکھانے لگا اور میں چھوٹا سا ادیب بن رہا تھا یہ پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے‘اس وقت ہمارے لاہور میں ایک کافی ہاؤس ہوتا تھا‘ وہاں بڑے سینئر ادیب رات گئے تک نشست کرتے تھے تو ہم بھی ان کے پاس بیٹھ کر ان سے باتیں سیکھتے تھے ان سے بات کرنے کا شعورحاصل کرتے تھے اور اپنے مسائل بھی ان سے بیان کرتے تھے اس زمانے میں راجندر سنگھ بیدی یہاں ڈاکخانہ میں کام کرتے تھے پریم چند بھی کافی ہاؤس میں آجاتے تھے اور اس طرح بہت بڑے لوگ وہاں آجاتے تھے میں رات دیر سے گھر آتا تھا‘میری ماں ہمیشہ میرے آنے پر ہی اٹھ کر چولہا جلاکر روٹی پکاتی تھی(اس زمانے میں گیس ویس تو ہوتی نہیں تھی) اور میں ماں سے ہمیشہ کہتا تھا کہ آپ روٹی رکھ کر سوجایا کریں‘تو وہ کہتی تو رات کو دیر سے آتا ہے میں چاہتی ہوں کہ تجھے تازہ پکا کر روٹی دوں جیسا کہ ماؤں کی عادت ہوتی ہے میں ان سے اس بات پر بہت تنگ تھا اور میں نے ان سے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر آپ اسی طرح رات دیر سے اٹھ کر روٹی پکاتی رہیں‘تو میں پھر کھانا ہی نہیں کھاؤں گا ایک دن یونہی رات دیر سے میرے آنے کے بعد ’پھلکا‘ (تازہ روٹی) پکاتے ہوئے انہوں نے مجھ سے پوچھا’کہاں جاتا ہے؟
 میں نے کہا اماں‘ میں ادیب بن رہا ہوں کہنے لگیں‘وہ کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا‘اماں! لکھنے والا‘ لکھاری وہ پھرگویا ہوئیں تو پھر کیا کریگا؟ میں نے کہا میں کتابیں لکھا کروں گا وہ کہنے لگیں‘ اینیاں اگے پیاں جیہڑیاں کتاباں اونہاں دا کی بنے گا؟ میں نے کہا‘ نہیں! نہیں‘ میں اور طرح کا رائٹر بنوں گا اور میں سچ اور حق کیلئے لڑوں گا اور میں ایک سچی بات کرنیوالا بنوں گا۔میری ماں کچھ ڈر گئی بیچاری ان پڑھ عورت تھی گاؤں کی میں نے کہا میں سچ بولا کروں گا اور جس سے ملوں گا‘سچ کا پرچارکروں گا مجھے اچھی طرح یاد ہے اسی وقت ماں کے ہاتھ میں پکڑے چمٹے میں روٹی اور پتیلی(دیگچی) تھی اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی اگر تونے یہی بننا ہے جو تو کہتا ہے اور تونے سچ ہی بولنا ہے تو اپنے بارے میں سچ بولنا لوگوں کے بارے میں سچ بولنانہ شروع کردینا یہ میں آپ کو بالکل ان پڑھ عورت کی بات بتا رہا ہوں سچ وہ ہوتا ہے جو اپنے بارے میں بولا جائے‘جو دوسروں کے بارے میں بولتے ہیں‘ وہ سچ نہیں ہوتا ہماری یہ عادت بن چکی ہے اور ہمیں ایسے ہی بتایا‘سکھایا گیا ہے کہ ہم سچ کا پرچار کریں۔ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ ان دنوں میرا پوتا‘ جواب بڑا ہوگیا ہے۔
 اسکی ماں نے کہا کہ تمہاری اردو بہت کمزور ہے تم اپنے دادا سے اردو پڑھا کرو وہ انگریزی سکول کے بچے ہیں‘اسلئے وہ زیادہ اردو نہیں جانتے خیر! وہ مجھ سے پڑھنے لگا اردو سیکھنے کے دوران میں وہ کچھ اور طرح کے سوالات بھی کرتا ہے پرسوں مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ دادا! یہ آمدورفت جو ہے‘ اس میں عام طور پر کتنا فاصلہ ہوتا ہے؟(اس نے یہ لفظ نیانیا پڑھا تھا)۔ اب اس نے ایسی کمال کی بات کی تھی کہ میں اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتا تھا پھر اس نے مجھ سے کہا کہ دادا! کیا نفسیات کی ایسی کوئی کتاب ہے‘ جس میں آدمی کو پرکھنے کے اچھے سے اور آسان سے طریقے ہوں؟ تو میں نے کہا کہ بھئی! تمہیں آدمی کو پرکھنے کی کیا ضرورت پیش آرہی ہے؟ اس نے کہا کہ پتہ تو چلے کہ آخر مدمقابل کیساہے؟ کس طرز کا ہے؟ جس سے میں دوستی کرنے جارہا ہوں‘ یا جس سے میری ملاقات ہورہی ہے میں اس کو کس کسوٹی پر لٹمس پیپر کے ساتھ چیک کروں میں نے کہا کہ ہماری استاد تو ہماری تائی تھی میں نے پہلے بھی اس کے بارے میں آپ لوگوں کو بتایا ہے‘لیکن آپ میں سے شاید بہت سے لوگ نئے ہیں اور ان کو’تائی‘ کے بارے میں پتہ نہ ہو‘ جسے سارا گاؤں ہی ’تائی‘ کہتا تھا بڑے کیا‘ چھوٹے کیا‘سبھی وہ ہمارے گاؤں میں ایک بزرگ تیلی جو  میری پیدائش سے پہلے فوت ہوگئے تھے ان کی بیوہ تھیں ہماری تائی تیلن تھی تیل نکالتی تھی اور کچی گھانی کا خالص سرسوں کا تیل بیچتی تھی سارے گاؤ ں والے اس سے تیل لیتے تھے خود ہی بیل چلاتی تھی‘بڑی لٹھ جو بہت مشکل ہوتی ہے‘بیلوں سے وہ اکیلی نکال لیتی تھی میں جب اس سے ملا تو اس کی عمر 80برس کی تھی میں اسوقت آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا‘ لیکن مجھے اس تائی کی شخصیت نے متاثر بہت کیا وہ اتنی خوش مزاج‘اتنی خوشی عطا کرنے والی اور خوش بختی کا سامان مہیا کرنیوالی تھی کہ جس کاحساب نہیں۔