زندگی کے مختلف گوشے

مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد اپنی زندگی کے تجربات اور مشاہدات کو قلمبند کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اب اس عمر میں پہنچ کر جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو اتنا لمبا راستہ طے ہو چکا ہے کہ جہاں سے یہ سفر شروع کیاتھا اس کا کوئی اندازہ نہیں ہوپاتا‘ ایک لمبی سیدھی لکیر ہے جو نظر تو آتی ہے اور جس کے واقعات بھی ایک دوسرے کے ساتھ الجھے ہوئے آگے تک چلے آتے ہیں لیکن اس بات کا کوئی فیصلہ نہیں ہو پاتاکہ اتنا سارا لمبا سفر طے کرنے کے بعد آخر آپ نے اس کا نتیجہ کیا نکالا ہے۔ میں عرض کر رہا ہوں کہ میرے ذہن میں 1929ء 1930ء اور اکتیس‘ بتیس کے واقعات گردش کر رہے ہیں جن میں سکول جا رہا ہوں۔ میری تختی ہے۔ میرا بستہ ہے پھر اس کے بعد میرے لئے 1935ء بہت ہی اہم سال تھا کہ ہمارے بادشاہ سلامت جارج پنجم (اس وقت برصغیر میں انگریز حکمران تھا کی سلور جوبلی منائی جا رہی تھی اور بڑی دھوم سے منائی جا رہی تھی۔ اس وقت ہم سب لوگ‘ یعنی بچے بہت خوش تھے‘ ہمیں تالی بجانے کے نئے نئے طریقے سکھائے گئے تھے اور گورا فوج کا دستہ ہمارے گھر کے سامنے پریڈ کر رہا تھا اور ہم اس سے مرعوب ہو کر اس کے پیچھے پیچھے ویسے ہی چلتے تھے۔ وہ بھی عجیب و غریب زمانہ تھا‘ آپ لوگوں نے اس طرح کا غلامی کازمانہ نہیں دیکھا جو ہم دیکھ چکے ہیں۔
 اس سلورجوبلی کی ساری یادیں میرے ذہن کے چوکٹھے میں پوری توانائی کے ساتھ اور پوری جزویات کے ساتھ قائم ہیں‘اس موقع پر ہمارے سکول میں لڈو بٹے تھے‘تین تین لڈو خاکی لفافے میں ڈال کر ہرطالب علم کو دئیے گئے تھے‘پہلی جماعت سے لیکر دسویں جماعت تک۔ پھر رات کے وقت ہمارے قصبے میں ایک مشاعرہ بھی ہوا تھا اور مجھے میرے والد سمجھاتے تھے کہ مشاعرہ کیا ہوتا ہے کیونکہ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ لوگ اکٹھے ہو کر کیا بولتے ہیں اور کیا وجہ ہے کہ ایک شخص بولتا ہے تو سب واہ‘ واہ کر اٹھتے ہیں۔خواتین و حضرات پھر بالکل سکرین کے اوپر زمانہ بدلتا گیا اور اب بھی بدلتا چلا جا رہا ہے میں نے حیران ہوکر دیکھا کہ اس وقت ایک بہت بڑے ہندوسیٹھ لالہ نتھو رام تھے۔ ان کے پاس ایک بگھی تھی جس کے آگے دو گھوڑے جوتے جاتے تھے‘پھر اچانک زمانے نے ایسا پلٹا کھایا کہ ان کی بگھی کے آگے سے گھوڑے ہٹ گئے لیکن وہ بگھی پھر بھی چلتی رہی‘وہ سارے شہر کا چکر کاٹتی تھی اور ہم لوگ بڑے‘ بوڑھے تالیاں بجاتے ہوئے اس کیساتھ ساتھ بھاگتے تھے اور لالہ جی اس کے اندربیٹھ کر مزے کر رہے ہوتے تھے۔
 اس بگھی پر ربر کا بنا بھونپو(باجا) پاں پاں کی آواز بھی نکالتا تھا‘ہم نے گھر میں آ کر اپنی ماں کو بتایا کہ اب بگھی تو بدل گئی ہے اور گھوڑا اس کے آگے نہیں ہے لیکن چلتی پھر بھی ہے تو میری ماں نے بتایا کہ ہاں ایسی بگھیاں بھی ہوتی ہیں۔ایک اور مقام پر اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ میں سوچتا ہوں کہ آپ لوگ بھی میری طرح کے ہی ہوں گے کیونکہ جو جو کوتاہیاں خامیاں مجھ میں سراٹھاتی ہیں ان مشکلات سے آپ بھی گزرتے ہوں گے‘ آپ بھی تو میرے ہی بھائی بہن ہیں‘فرق صرف یہ ہے کہ میں کئی بار اس کا اعتراف کرلیتا ہوں‘کئی دفعہ نہیں کرتا‘مثلاً میں یہ سوچا کرتاہوں اور میری یہ ایک مشکل ہے کہ جب کبھی کوئی سڑک چوراہا کراس کرتاہوں تومجھے سرخ بتی ہی کیوں ملتی ہے‘ میں جب بھی گزرا ہوں‘مجھے سرخ بتی میں ملتی ہے۔ اچھا چلیے مل گئی‘میں وہاں کھڑا ہوگیا پھریہ کیوں ہوتاہے کہ سرخ بتی کا لمحہ جو ہے وہ آدھے گھنٹے پر محیط ہوتاہے‘سبز جوہوتی ہے وہ دس سیکنڈ میں بدل جاتی ہے۔
بڑا دکھ ہوتا ہے مجھے۔ میں پرانے زمانے کا آدمی ہوں‘جب میں نئے زمانے کا آدمی نہیں تھا تو میں لال صابن سے نہاتا تھا‘ہمیشہ۔ اب بھی لال صابن سے نہاتا ہوں‘تو میری بہو جو ہے وہ بہت چڑتی ہیں اور وہ شرمندہ ہوتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ماموں یہ آپ خدا کے واسطے چھوڑیں لال صابن نہانے کیلئے نہیں ہوتا تو میں نے کہا‘ بھئی ہم ایک زمانے سے یہی کرتے چلے آرہے ہیں‘وہ کہتی‘دیکھیں میں آپ کو اچھے والا صابن دے رہی ہوں‘ اس سے نہائیں‘ وہ صابن ہوتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے کہ ”ایکٹرسوں کے حسن کا راز اس صابن میں ہے“ 
کچھ اس قسم کی چیز ہوتاہے اور بہت اچھا خوب خوشبودار اعلیٰ درجے کا ہوتاہے‘ تو میں اس سے جب نہاتا ہوں‘خاص طورپر اپنے پیارے لال صابن سے بھی تو خواتین و حضرات یہ کیوں ہوتا ہے کہ نہاتے وقت جب صابن ہاتھ سے چھوٹ جاتاہے تو وہ غسل خانے کے آخری کونے میں ہی کیوں جاتا ہے پاؤں کے پاس کیوں نہیں گرتا‘ پھر منہ کو صابن لگا ہوا ہوتا ہے اور میں اس کو تلاش کرتا کرتا بڑی مشکل سے وہاں پہنچتا ہوں اور پھر نہاتا ہوں۔ 
یہ بھی تو ہوسکتاہے کہ صابن گرے قدموں میں گھٹنوں کے پاس آکر ٹخنوں کے درمیان کھڑا ہوجائے۔ میں آرام سے پکڑوں اور نہانا شروع کردوں لیکن ایسا ہوتا نہیں‘یہ مشکلات ہیں میری‘مثلاً میری بیوی مجھ سے کہتی ہے کہ آپ جائیں‘ یہ بہت ضروری فارم ہے‘ یہ آپ بینک میں خود جمع کروا کے آئیں۔ پچھلے دنوں جب میٹرک کے امتحان تھے ناکسی ملازم کا بچہ وہ میٹرک کا امتحان دے رہا تھا، وہ باہر سے آئے ہوئے تھے، تو اس نے (میری بیوی) کہا کہ جی آپ کرواکے آئیں۔ آپ کا بھی یہ تجربہ ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ آپ بھی اس مشکل مرحلے سے گزرے ہوں گے اور گزرتے ہوں گے۔