آگرے سے کافی باہر ہی سے اکبر اور شاہ جہاں کے زمانے کی شاندار عمارتوں کے کھنڈر شروع ہوجاتے ہیں۔ کیسی کیسی حویلیاں رہی ہوں گی‘ اب خار زاریں ہوگئی ہیں۔ مجھے آگرے کے نامور شاعر اور دانشور مکیش اکبر آبادی صاحب سے ملنا تھا۔ وہ پرانے وقتوں کی نشانی ہیں اور اردو ادب میں ان کا بڑا رتبہ ہے۔ پرانے شہر میں کہیں کوئی سیو کا بازار ہے۔ اس کے اندر میوہ کڑا ہے‘ اس میں رہتے ہیں۔ چنانچہ میں پرانے شہر کی طرف چلا۔ اکبر اور شاہ جہاں کے قلعے کی شوکت و عظمت کو سراہتا‘ جہاں آراء بیگم کی مسجد کے تین بڑے بڑے گنبدوں کی سربلندی کا دم بھرتا میں آگے بڑھا۔ اس کے بعد آگرے کے بازار آگئے۔ کناری بازاری‘ سیو کا بازار‘ جوتے چپلوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی دکانیں‘ سلے سلائے کپڑوں سے بھری ہوئی دکانیں‘ پانچ ڈالر میں دن گزارنے والے پھٹے حال گورے نوجوان کے لئے سستے ہوٹل‘ متھرا کے پیٹھے سے لے کر برف پر آراستہ مکھن کے پیڑوں تک سو طرح کی مٹھائی بیچنے والے حلوائی اور پھر آگرے کی چاٹ کی دکانوں میں تلی جانے والی آلو کی ٹکیوں کی نہایت لذیذ مہک۔ ان منظروں سے گزرتے ہوئے بازاروں اور گلیوں کے فرش پر جو نگاہ گئی تو دیکھا کہ جن سرخ پتھروں سے شاہ جہاں کے قلعے بنے تھے۔
ویسے ہی سرخ پتھروں کی لمبی لمبی سلوں سے یہ گلی کوچے پختہ کئے گئے تھے۔ یہ پتھر اس خوبی سے جمائے گئے تھے کہ کئی سو برس کی کوئی بارش‘ کوئی سیلاب چار چار چھ چھ فٹ لمبی ان سلوں کو اپنی جگہ سے نہ ہٹا سکا۔ فرنگی نے ان پتھروں کی خوبی کو تاڑ لیا اور ہاتھ نہیں لگایا لیکن نئے دور میں جب پانی کی فراہمی اور نکاسی کیلئے نالیاں اور پائپ ڈالنے کی ضرورت پڑی تو غضب ہوگیا۔ شاہ جہاں کے زمانے کے یہ پتھر اٹھائے گئے اور بعد میں جب انہیں دوبارہ جمانے کی کوشش کی گئی تو کوئی انجینئر ایسا نہ ملا جو ان پتھروں کو دوبارہ ویسے ہی سلیقے اور قرینے سے چن دے۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ شہر آگرہ کے کسی گھر کے راستے میں اب کوئی کہکشاں نہیں ہے۔ میں ان ہی پتھروں پر چل کر مکیش صاحب کے گھر پہنچا۔ بہت ضعیف اور کمزور ہوگئے۔ نقاہت کا عالم تھا۔ میرے آنے کی خبر پائی تو اٹھ بیٹھے اور دیر تک آہستہ آہستہ باتیں کرتے رہے۔ مکیش صاحب نے کہا ”یہ سڑکوں کے پتھر تو ابھی وہی ہیں لیکن آدمی بالکل تبدیل ہوگئے‘ اب ایسا ہے کہ ہم بازار میں چلے جائیں تو معلوم ہوتا ہے ہم کسی اور شہر میں آگئے“۔ جن مکانوں اور بازاروں کا مکیش صاحب ذکر کررہے تھے وہ شاہ جہاں اور اورنگزیب کے عہد کی تصویر ہیں۔
لمبے لمبے بازار‘ دو رویہ دو دو منزلہ عمارتیں‘ اوپر برآمدے‘ سایہ بان‘ دریچے‘ کٹہرے‘ محرابیں‘ چھجے اور چلمنیں‘ نیچے دکانیں ہی دکانیں‘ یہی حال ایک کے اندر ایک چلی جانے والی تنگ گلیوں کا ہے۔ مگر اب پرانی عمارتیں ڈھا کر مارکیٹیں بن رہی ہیں‘ دکانیں نکالی جارہی ہیں‘ فلیٹ کھڑے کئے جارہے ہیں۔ بے شمار عمارتیں کھنڈر ہوئیں پھر بھی مغل عہد کا یہ شہرا بھی اپنی اصل حالت میں ہے مگر کچھ عرصے میں نہیں رہے گا۔ آگرے کی پرانی آبادی اور ان گلیوں کے بارے میں شہر کے قدیم باشندے حکیم مبین الزماں صاحب نے دلچسپ باتیں بتائیں۔ ”شاہان مغلیہ کے زمانے میں آگرے کی آبادی جمنا پار سے شروع ہوتی تھی اور وہاں سے لے کر فتح آباد تک سب آبادی تھی اور اکبر کے زمانے میں جو آبادی تھی وہ لوہا منڈی سے لے کر متھرا تک تھی۔ بڑے بڑے محل تھے‘ حویلیاں اور عمارتیں تھیں۔ وہ سب ختم ہوگئیں‘ اب وہاں سب قبرستان ہوگئے۔ اب آبادی شاہ جہاں کے بعد جو ہوئی ہے تو سٹی میں ہوئی ہے۔
اس زمانے میں یہ عمارتیں بنیں اور پتلی پتلی سڑکیں بنیں۔ پہلے زمانے میں چوڑی سڑکیں نہیں ہوتی تھیں۔ اس سے پہلے جو آبادی تھی وہ ادھر ہی تھی‘ شہر باہر“۔ یہ تھے حکیم مبین الزماں صاحب‘ اب مرحلہ تھا آگرے کی سیر کا‘کہتے ہیں کہ سفر شرط ہے‘ مسافر نواز بہتیرے ہیں‘ میرے ساتھ یہی ہوا۔ وہیں سیو کے بازار میں‘ اسی میوہ کڑا کے اندر آگرے کے نامور صوفی‘ عالم‘ شاعر اور ادیب شاہ دلگیر مرحوم کا گھرانہ تھا‘ وہیں قدیم حویلی میں ان کے بیٹے رہتے ہیں۔ اب ضعیف ہوگئے ہیں اور نہ صرف اپنے خانوادے کے علم و ادب کے خزانوں کو بلکہ اعلیٰ روایات کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ (رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے اقتباس)