قربانی و ایثار

قیام پاکستان کے وقت قربانی اور ایثار کے جو مناظر سامنے آئے وہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔شاہ بلیغ الدین قیام پاکستان کے دنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک بڑھیا بے چاری بڑی مشکل سے ہانپتی کانپتی ٹرین کے ڈبے میں سوار ہوگئی۔ چھوٹی سی گٹھڑی اس کے ساتھ تھی۔ اسے لیکر بمشکل وہ ایک طرف کو تھوڑی سی جگہ بنا کر بیٹھ گئی یہ دو آدمیوں کا چھوٹا سا فرسٹ کلاس کا ڈبہ تھا لیکن اسکے اندر بیس آدمی ٹھسے ہوئے تھے۔ کوئی کھڑا تھا کوئی بیٹھا تھا‘ جو جگہ لوگوں سے بچ گئی تھی اس میں سامان رکھا ہوا تھا۔ حالات کچھ ایسے تھے کہ کوئی کسی سے پوچھ نہ سکتا تھا کہ …… بھیا تم کس درجہ کے مسافر ہو؟ یہ فرسٹ کلاس کا ڈبہ ہے اور پہلے سے دو آدمیوں کے لئے ریزرو ہے۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب ملک تقسیم ہوا تھا  ہندوستان سے مسلمان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جان بچائے کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچ رہے تھے۔ پاکستان ان کیلئے سب کچھ تھا۔یہ بے چاری بڑھیا بھی اپنا سب کچھ لٹا کر جانے کس طرح بچتی بچاتی پاکستان پہنچ گئی تھی۔ اسے اتنا ہوش ہی کہاں تھا کہ یہ تمیز کرسکتی کہ وہ کس درجہ میں آکر بیٹھ گئی ہے۔ اسے تو بس ایک بات معلوم تھی کہ …… یہ ہمارا ملک ہے یہ ہماری گاڑی ہے جو دوسرے مسافر تھے ان کا بھی یہی حال تھا۔ ہر ایک کا چہرہ غم و الم کی تصویر تھا۔
 کیا کیا کچھ کھویا تھا‘کہ اس ملک کو پالیں یہ کون کہتا؟ کیسے کہتا؟کس سے کہتا؟مسلسل صدمات برداشت کرتے کرتے دلوں میں ناسور پڑ گئے تھے اور زبانیں گُنگ ہوگئی تھیں۔گاڑی کو پاکستان کی سرحد میں داخل ہوئے کچھ بہت زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک سٹیشن پر ٹکٹ چیکر ڈبے میں داخل ہوا۔ اسکے ہاتھ میں ایک کاپی تھی‘ مشتاق احمد صاحب اپنی آپ بیتی کاروانِ حیات میں لکھتے ہیں کہ …… ٹکٹ چیکر کو دیکھ کر معاً مجھے خیال آیا کہ مدتوں میں ریلوے کا افسر رہا ہوں۔ دیکھوں یہ چیکر کیا کرتا ہے۔چیکر نے بڑھیا کو دیکھا تو اس سے ٹکٹ کا مطالبہ کیا وہ کسی قابل ہوتی تو کچھ کہتی‘بے اختیار اسکی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ پڑے اسکے پاس ٹکٹ نہ تھا۔ کسی درجہ کا بھی ٹکٹ نہ تھا۔مشتاق صاحب لکھتے ہیں۔ میں نے بڑی حیرت سے دیکھا کہ چیکر نے اپنی نوٹ بک نکالی اور بلا ٹکٹ سفر پر بڑھیا کا چالان کردیا‘ اس نے رسید کاٹ دی تو بڑھیا بے اختیار اس سے بولی بیٹا! میرے پاس کچھ نہیں تو یہ رسید نہ کاٹ!جواب ملا۔ اماں! اگر ہم بِلا ٹکٹ سفر کریں تو ہمارے نئے ملک کا کام کیسے چلے گا؟ تمہارا چالان ہوگا۔ پیسے داخل ہوں گے۔ تم بہت دکھیاری ہو۔
 تمہارے لئے میرا دل بھی دکھی ہے۔ یہ جرمانہ تم نہیں دوگی میں اپنی طرف سے دے دونگا۔اس طرح معروف براڈ کاسٹر آغا ناصر  وطن عزیز کے قیام کے وقت حالات اور واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے طرز تحریر کیساتھ لکھتے ہیں کہ یہ بالکل ابتدائی دور تھا میرے سب سے بڑے بھائی علی اشرف غوری‘ جنہیں ہم بھائی صاحب کہتے تھے اپنے دوستوں اور عزیزوں کا اتنا خیال رکھنے والے تھے کہ ان دنوں جو کوئی بھی میرٹھ سے آتا سیدھا بھائی صاحب کے چھوٹے سے کوارٹر میں آکر مقیم ہوجاتا اور پھر جب تک اسکا کوئی روزگار نہ لگ جائے یا کہیں اور ٹھہرنے کا بندوبست نہ ہوجائے انہی کے پاس رہتا۔آنیوالوں میں ایک مہمان رئیس زادے تھے نیلی نیلی آنکھیں‘ بھورے بال‘ بالکل یورپین لگتے تھے معلوم نہیں کیوں سب کچھ چھوڑ چھاڑ اکیلے کراچی آگئے تھے بھائی صاحب کے برآمدے میں آکر فروکش ہوگئے اور مہینوں رہتے رہے بھائی صاحب نے انہیں ملازمت دلوانے کی بہت کوشش کی وہ لاڈوں کے پلے جہاں بھی جاتے بس ایک یا دو دن کام کرکے بھاگ آتے روزانہ صبح نہاد ھو کرکپڑے بدلتے‘خوشبو لگاتے اور گھر سے نکل کر خدا جانے کہاں جاتے تھے۔
 ایک دن عجب قصہ ہوا رات پچھلے پہر بھائی صاحب کے دروازے پر دستک ہوئی دو پولیس والے ان صاحب کو ساتھ لئے کھڑے تھے انہوں نے بتایا شام کو یہ ہوٹل کے ڈرائنگ روڈ پہنچے‘مینو کارڈ منگایا‘جو کچھ بھی آرڈر کیا جاسکتا تھا‘کھانے پینے کے بعد جب بل آیا تو یہ ہاتھ جھاڑ کر کھڑے ہوگئے کہ میرے پاس تو ایک پیسہ بھی نہیں ہے پولیس نے بل کی ادائیگی نہ کرنے کی سزا کے طور پر حوالات میں بند کردیا سنا ہے وہ سارا وقت زار وقطار روتے رہے اب پولیس والے ان کو ساتھ لے کر بھائی صاحب کے گھر آئے اور پیسوں کی ادائیگی کا تقاضا کرنے لگے‘جب بھائی صاحب نے پوچھا تم نے ایسا کیوں کیا اس کا سبب انہوں نے یہ بتایا کہ میں نے بڑے عرصہ سے اس طرح کے کھانے نہیں کھائے تھے یہ کہہ کر وہ پھر زار وقطار رونے لگے اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ ان کا بل ادا کردیا جائے بھائی صاحب نے یہ سوچ کرکہ تفصیلی بات صبح ہو گی ان سے اس وقت کچھ نہیں کہا مگر اگلی صبح کو جب بھائی صاحب چاہتے تھے کہ ان سے بات کریں تو وہ گھر چھوڑ کر جاچکے تھے۔