اس پر آشوب دور میں کیا کوئی ایسا ملک ہے جہاں مہنگائی نے لوگوں کو بے حال نہ کیا ہو‘ کیا کوئی ایسی حکومت ہے جو غیر مقبول نہ ہواور جسے اگلے انتخابات میں ایک بڑی ناکامی کا سامنا نہ ہو‘ انتہائی مہنگے داموں تیل اور گیس بیچنے والے ممالک یقیناّّ اربوں ڈالر بنا رہے ہیں اور انکے عوام بھی مہنگائی کے شکنجے میں نہیں جکڑے ہوئے مگر انہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے امریکہ‘ سعودی عرب کے بعد سب سے زیادہ تیل پیدا کرتا ہے مگر یہاں بھی ریگولر گیس کا ایک گیلن پانچ ڈالر سے زیادہ ہے ڈیڑھ برس پہلے ایک گیلن کی قیمت دوڈالر سے کم تھی۔ تیزی سے بڑھتے ہوئے افراط زر کیوجہ سے اب ماہرین اقتصادیات یہ بحث کر رہے ہیں کہ Recession یا کساد بازاری اس سال کے آخر میں آئیگی یا اگلے سال کے شروع میں۔صدر بائیڈن کی مقبولیت کا گراف 38 فیصد تک گر چکا ہے انکی اس ناکامی کے سائے آٹھ نومبر کو ہونیوالے وسط مدتی انتخابات پر پڑتے ہوے نظر آ رہے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ اسوقت داخلی اور خارجی محاذ پر تیزی سے ایسے اقدامات کر رہی ہے جو تیل‘ گیس اور خوراک کی قیمتوں کو کم کر سکیں آجکل حکومت ہر روز ایک ملین بیرل آئل Strategic Petroleum Reserve سے مہیا کر رہی ہے۔ یوکرین جنگ کے شروع ہوتے ہی کانگرس سے مشورہ کر کے صدر بائیڈن نے روس سے تیل کی درآمد پر پابندی لگا دی تھی۔ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے اب حکومت کو برے وقتوں کیلئے ذخیرہ کئے ہوئے تیل کو استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔ مہنگائی اور افراط زر کا عفریت پوری دنیا پر چھایا ہو اہے عالمی نظام کو درپیش خطرات کو کم کرنے کیلئے صدر بائیڈن جولائی کے وسط میں سعودی عرب کا دورہ کر رہے ہیں۔ ریاض میں وہ سعودی حکمرانوں سے تیل کی پیدا وار میں اضافے کا مطالبہ کریں گے اس سے پہلے وہ کئی مرتبہ سعودی عرب کی حکومت پر سخت تنقید کر چکے تھے مگر اب ایک بڑے خطرے کو ٹالنے کیلئے انہیں اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کرنا پڑی ہے۔ اسی طرح امریکہ کل تک وینز ویلا کی حکومت کو ختم کرنے کیلئے اربوں ڈالر خرچ کر رہا تھا مگر آجکل اسی دشمن ملک سے تیل خریدنے کیلئے بات چیت ہو رہی ہے۔ یورپی ممالک بھی کئی سالوں سے ذخیرہ کئے ہوے تیل کو بیچ کر قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر انہیں کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔برطانیہ میں گذشتہ ماہNational Union Of Rail کے کارکنوں نے تین دن تک کئی شہروں میں ٹرینیں اور بسیں نہیں چلائیں اسے پچھلے تیس سالوں میں سب سے بڑی ہڑتال کہا جا رہا ہے۔ ریلوے یونین کے جنرل سیکرٹری Mick Lynch آجکل برطانوی میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم بورس جانسن نے انہیں لاکھوں لوگوں کی مشکلات کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ شخص ایک Union Baron ہے اسکے جواب میں Mick Lynch نے کہا ہے کہ ہم اپنا حق مانگ رہے ہیں We have got to have something that reflects the real cost of living یعنی ہمیں ایسی اجرت ملنی چاہئے جو مہنگائی کا مقابلہ کر سکے۔گزشتہ ہفتے لندن میں Central Criminal Court کے سامنے اور کئی دوسرے شہروں میں بھی حکومت کے تنخواہ دار وکلا ء نے مظاہرے کئے انکے اٹھائے ہوے پلے کارڈز پر لکھا تھا کہ برطانیہ کے نظام انصاف کو مرنے سے بچایا جائے۔ اس ملک گیر ہڑتال کی وجہ سے عدالتوں میں مقدمات نہ سنے جا سکے اور کئی شہروں میں عدالتی نظام مفلوج ہو کر رہ گیا۔ حکومت نے اس گمبھیر صورتحال پر قابو پانے کیلئے فوراً سرکاری وکلاء کی تنخواہ میں ستمبر سے 15فیصد اضافے کا اعلان کیا مگر وکلا ء نے اس اضافے کو مسترد کرتے ہوے کہا کہ اسے جلد از جلد نافذ کیا جائے۔دو سال تک معیشت کو دیمک کی طرح چاٹنے والی کووڈ 19 اور اسکے ساتھ یورپی یونین سے Brexit تحریک کے نتیجے میں علیحدگی اور پھر یوکرین جنگ نے برطانیہ کو ایک بحرانی کیفیت سے دو چار کیا ہوا ہے۔ وزیر اعظم بورس جانسن کی ٹوری پارٹی کے ممبر Daniel Hannon نے Sunday Telegraph میں لکھا ہے It is a feeling of Chaos, the sense that Britain is falling apart یعنی یہ انتشار کی صورتحال ہے۔لگتا ہے کہ برطانیہ ٹوٹ رہا ہے برطانوی میڈیا کے مطابق برٹش ائیر ویز‘ سکول ٹیچرز یونین‘ محکمہ صحت اور پوسٹل ورکرز نے بھی عنقریب ہڑتال کرنے کی دھمکی دی ہوئی ہے ایک اخبار نے ان ہڑتالوں کی خبر پر یہ سرخی جمائی ہے With Workers Straind, Britain Braces for a Summer of Discontent یعنی کارکنوں کے مسائل کی وجہ سے برطانیہ بے چینی کے موسم گرما کی طرف بڑھ رہا ہے۔یورپی یونین کے ممبر ممالک پانچ ماہ سے جاری یوکرین جنگ کی وجہ سے ہانپ رہے ہیں مگر گزشتہ ہفتے جرمنی میں جی سیون ممالک کے اجلاس میں ان خوشحال اور طاقتور ممالک کے سربراہوں نے اسوقت تک یہ جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا کہ جب تک روس اسے ختم نہیں کرتا۔جرمنی‘ فرانس‘ اٹلی اور کئی دیگر یورپی ممالک کے لوگ اس جنگ سے اُکتا چکے ہیں۔ انہیں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے علاوہ یہ خوف بھی ہے کہ اگر روس نے سردیوں میں یورپ کو گیس کی سپلائی بند کر دی تو وہ اپنے گھروں کو گرم نہ کر سکیں گے مگر ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں کے مصداق یورپ کو امریکہ سے دوستی نبھانی پڑ رہی ہے۔امریکہ اب تک اس جنگ میں بیالیس ارب ڈالر جھونک چکا ہے اور صدر بائیڈن آئے روز یوکرین کو مزید اسلحہ او مالی امداد دینے کے اعلان کرتے رہتے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ تضادات کے اس پلندے کو وہ کب تک اٹھائے رکھتے ہیں۔ادھر جاپان میں لوگوں کو کئی دنوں سے 100ڈگری سے زیادہ گرمی کا سامنا ہے امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق جاپان میں گذشتہ سوا سو سال میں گرمی کی اتنی شدید لہر نہیں آئی پچھلے ہفتےHeat Stroke کی وجہ سے 4500 افراد کو ملک بھر میں ایمبولینسوں کے ذریعے ہسپتالوں میں پہنچایا گیا۔حکومت لوگوں کو گھروں سے نہ نکلنے کا مشورہ دے رہی ہے اورالیکٹرک پاور کمپنیوں نے بجلی کی سپلائی میں کمی کی یہ وجہ بتائی ہے کہ گرڈ صحیح طریقے سے کام نہیں کر رہے۔ٹوکیو کے گورنر Yuriko Koike نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ وہ صرف ایک لیمپ کی روشنی میں کام کرتے ہیں۔ترقی پذیر ممالک میں صورتحال زیادہ گمبھیر ہے انٹرنیشنل انرجی ایجنسی نے کہا ہے کہ کوئلے‘ تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ایشیا اور فریقہ میں اسوقت 90ملین لوگوں کو بجلی کی سہولت میسر نہیں ہے۔ چین کے وزیر اعظم Li Ke Qiang نے کہا ہے کہ کوئلے کی پیداوار میں اضافے سے بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں میں کمی لائی جا سکتی ہے۔چند گھنٹے پہلے کی خبروں کے مطابق پٹرول کے ایک بیرل کی قیمت 120 ڈالر سے کم ہو کر سو ڈالر سے نیچے آگئی ہے امید ہے کہ پوری دنیا کو مہنگائی کے جس بحران کا سامنا ہے اسکی شدت میں جلدکمی آ جائیگی۔
اشتہار
مقبول خبریں
مشرق وسطیٰ‘ یحییٰ سنوار کے بعد
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
ڈونلڈ ٹرمپ‘ ناکامی سے کامیابی تک
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
کیا ٹرمپ کا امریکہ ایک مختلف ملک ہو گا
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی