آری چور

شک کے حوالے سے مجھے بڑی گزری باتیں یاد آ رہی ہیں‘ جوانی میں مجھے درختوں اور پودوں کے ساتھ بڑا شغف تھا۔ اس وقت میرے پاس ایک چھوٹی آری ہوا کرتی تھی جس سے میں درختوں کی شاخیں کاٹتا تھا اور ان کی اپنی مرضی کے مطابق تراش خراش کیا کرتا تھا اور ہمارے ہمسایوں کا ایک بچہ جو پانچویں‘ چھٹی میں پڑھتا ہوگا۔ وہ اس ولایتی آری میں بہت دلچسپی لیتاتھا ایک دو مرتبہ مجھ سے دیکھ بھی چکا تھا اور اسے ہاتھ سے چھو کر بھی دیکھ چکا تھا ایک روز میں نے اپنی وہ آری بہت تلاش کی لیکن مجھے نہ ملی۔ میں نے اپنے کمرے اور ہر جگہ اسے تلاش کیالیکن بے سود۔ اب جب میں گھر سے باہر نکلا تو میں نے پڑوس کے اس لڑکے کو دیکھا اس کے چہرے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ میری آری اس نے ہی چرائی ہے۔اس کی شکل‘ صورت‘ چلنے بات کرنے کا انداز‘سب بدل گیا تھا۔ جیسے جو ملک دوسرے پر حملہ کرنا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ Culprit ہے یا اس نے کوئی ایسی کوتاہی کی ہے جو ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوئی اور ان کو یہ لگنے لگتا ہے کہ اس میں یہ‘ یہ خرابی ہے اور مجھے بھی پڑوس کے اس لڑکے پر سارے شک وارد ہونے لگے۔ اب مجھے ایسے لگتا کہ جس طرح وہ پہلے مسکراتا تھا‘ اب ویسے نہیں مسکراتا۔ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے وہ مجھے اپنے دانتوں کے ساتھ چڑارہا ہو۔اس کے کان جو پہلے چپٹے تھے‘ وہ اب مجھے کھڑے دکھائی دیتے اور اس کی آنکھوں میں ایسی چیز مجھے دکھائی دیتی جو ایک آری چور کی آنکھوں میں نظر آ سکتی ہے لیکن مجھے اس بات پر بڑی تکلیف ہوئی جب میں نے اس آری کو گھر میں موجود پایا کیونکہ میں ہی اس آری کو اٹھا کر گھر کے اندر آیا تھا اور ایک دن ایسے ہی اخباروں کی الٹ پلٹ میں مجھے وہ آری مل گئی‘ جب مجھے وہ آری مل گئی اور میں شرمندگی کے عالم میں باہر نکلا تو یقین کیجئے وہی لڑکا اپنی ساری خوبصورتیوں اور بھولے پن کیساتھ اور ویسی ہی معصومیت کیساتھ مجھے نظر آ رہاتھا۔ میں کہاں تک آپ کو یہ باتیں بتا تا چلا جاؤں‘ آپ خود سمجھدار ہیں اور جانتے ہیں شک کی کیفیت میں پوری بات ہاتھ میں نہیں آتی۔  کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے  کہ ہمارے باغ جناح میں پرانے جمخانے کے سامنے اندرون شہرکی ایک خاتون بنچ کے اوپر بیٹھی تھی اور اپنے چھوٹے بچے کو اپنے گھٹنے کے اوپر ہلا رہی تھی، اس کی تین بچیاں کھیلتی ہوئی باغ میں پھیل گئی تھیں اور ایک دوسرے کے ساتھ لڑتی تھیں اور بار بار چیخیں مارتی ہوئیں ماں سے ایک دوسری کی شکایت کرتی تھیں ذرا دیر بعد پھر ماں کو تنگ کرنا شروع کردیتیں اور پھر چلی جاتیں‘آخر میں پھر لڑتی ہوئی دو بچیاں آئیں اور کہا کہ ماں اس نے میری فلاں اتنی بڑی چیز لے لی ہے‘ ایک نے مٹھی بند کی ہوئی تھی‘آخر ماں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا کھول دے مٹھی۔ جب اس نے مٹھی کھولی تو اس میں سوکھا ہوا درخت سے گرا بھیڑہ تھا، ایک نے کہا‘ پہلے میں نے دیکھا تھا‘ یہ میرا ہے‘ ان کی ماں نے دوسری سے کہا‘ اسے دے دو‘ پھر وہ صلح صفائی کرتے ہوئے بھاگ کر چلی گئیں‘ جب میں نے ان کے درمیان اتنی زیادہ لڑائی دیکھی تو میں نے اس خاتون سے کہا کہ آپ تو مشکل میں پڑی ہوئی ہیں‘ یہ بچے آپ کو بہت تنگ کرتے ہیں‘تو اس نے کہا کہ بھائی! مجھے یہ بہت تنگ کرتے ہیں لیکن میں ان سے تنگ ہوتی نہیں، میں نے کہا وہ کیسے؟ کہنے لگیں‘ یہ جو میرے بچے ہیں اپنی نانی کے مرنے کے بعد پیدا ہوئے ہیں‘ میں سوچتی ہوں کہ اگر ان کی نانی زندہ ہوتی تو یہ بچیاں کتنی ہی شیطانیاں کرتیں‘ ضد کرتیں‘ لڑائیاں کرتیں‘ لیکن پھر بھی اپنی نانی کی پیاریاں اور لاڈلیاں ہی رہتیں‘ جب میرے ذہن میں یہ خیال آتا ہے تو یہ کچھ بھی کریں‘ میں اپنی نانی کے حوالے سے انہیں معاف کردیتی ہوں اور یہ مزے سے کھیلتی رہتی ہیں‘ جب اس نے یہ بات کی تو میں سوچنے لگا کہ کیا ہمارے سیاسی اور سماجی وجود میں کوئی نانی جیسا تصور نہیں آسکتا؟(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے انتخاب)