ایک سرگرم و فعال ادیب اور ایک تجربہ کار و جہاندیدہ بیورکریٹ کی حیثیت سے قدرت اللہ شہاب نے جو اپنے مشاہدات قلمبند کئے ہیں، ان میں وہ لکھتے ہیں کہ میں کے جی اے ہال میں صبح کے اجلاس میں بیٹھا تھا کہ پریذیڈنٹ ہاؤس سے ملٹری سیکرٹری کا فون آیا۔ اس نے مسرت اور بشاشت سے لبریز لہجے میں مجھے بتایا کہ صدر ایوب کو کل رات سے بخار آرہا ہے اس لئے آج تیسرے پہر وہ کنونشن کے اختتامی اجلاس میں شریک نہیں ہوسکتے‘ میں صدر کی مزاج پر سی کے بہانے دو بجے پریزیڈنٹ ہاؤس پہنچا۔ وہ ڈریسنگ گاؤن پہنے برآمدے میں ایک آرام کرسی پر دراز تھے اور کچھ فائلیں پڑھ رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر وہ مسکرائے اور بولے ”میں یونہی بہانہ نہیں کررہا‘ اس وقت بھی مجھے 100 درجہ کا بخار ہے۔“”میں تو صرف آپ کی خیریت پوچھنے آیا ہوں۔“ میں نے کہا۔”تمہارے ادیب لوگ یہ تو نہیں سمجھیں گے کہ میں بہانہ کررہا ہوں؟“ میرا خیال ہے میں کنونشن میں آؤں گا‘ کوئی تقریر بھی کرنا پڑے گی؟“”جی نہیں سر۔ آپ کی طرف سے ہم نے کوئی تقریر نہیں رکھی۔
آپ اگر ہماری چند باتیں سن ہی لیں تو ہمارے لئے یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔“”Good“ صدر ایوب نے کہا ”میں ضرور وقت پر آجاؤں گا۔“مجھے یقین تھا کہ جلسے کے اختتام پر سامعین ضرور صدر مملکت سے بھی کچھ سننا چاہیں گے‘ لیکن میں نے جان بوجھ کر پروگرام میں ان کی کوئی تقریر نہ رکھی تھی‘ کیونکہ اگر ایسا کیا جاتا تو صدر کے سیکرٹری کے طور پر میرا فرض منصبی تھا کہ میں ان کی تقریر کا ڈرافٹ تیار کرکے ان کی خدمت میں پیش کرتا لیکن آج میں نے ایک سوچا سمجھا خطرہ مول لے کر چالاکی سے اپنے فرض سے دیدہ و دانستہ کوتاہی اختیار کرلی‘ کیونکہ کنونشن میں صدر مملکت کے منہ سے میں اپنے ڈرافٹ کئے ہوئے فقرے نہیں سننا چاہتا تھا بلکہ دوسروں کی طرح مجھے بھی یہی ٹوہ لگی ہوئی تھی کہ دیکھیں ادب اور ادیبوں کے متعلق صدر ایوب کے اپنے ذاتی خیالات کیا ہیں؟کنونشن کے آخری اجلاس میں صدر ایوب ٹھیک وقت پر تشریف لے آئے۔
ہال میں داخل ہوتے ہی حاضرین نے کھڑے ہوکر تالیوں سے ان کا استقبال کیا۔ ایک اور مقام پر قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ایک آفیسر میاں محمد سعیدکو راولپنڈی سے پچاس ہزار روپے کی رقم دیکر تنخواہیں تقسیم کرنے کیلئے پلندری بھیجا گیا سڑک بھی خراب تھی اور بارش بھی موسلادھار برس رہی تھی آزاد کشمیر کے علاقے میں جیپ پھسل کر ایک گہری کھڈ میں جاگری‘ میاں سعید کو نہایت شدید زخم آئے اور بہت سی ہڈیاں بھی ٹوٹ گئیں‘اپنی تکلیف بھلا کر انہوں نے پچاس ہزار روپے کی رقم کا بیگ اپنی بغل میں دبایا اور اس کی حفاظت کیلئے مستعد ہوکر بیٹھ گئے‘ حادثہ کی خبر سن کر آس پاس کے بہت سے دیہاتی بھی جائے وقوعہ پر جمع ہو گئے‘انہیں جب معلوم ہوا کہ شدید زخموں کے باوجود میاں صاحب سرکاری رقم کی حفاظت کی وجہ سے پریشان ہیں تو سب نے مل کر بہ یک آواز درخواست کی کہ وہ آرام سے لیٹ جائیں‘ یہ رقم بیت المال کی امانت ہے‘ اس کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔
کئی گھنٹوں کے بعد جب ایک امدادی ٹیم وہاں پہنچی تو میاں صاحب زخموں کی تاب نہ لاکر نڈھال ہو چکے تھے اور سرکاری رقم دیہاتیوں کی حفاظت میں جوں کی توں موجود تھی۔جس مقام پر اب منگلا ڈیم واقع ہے وہاں پر پہلے میر پور کا پرانا شہر آباد تھا‘ایک روز میں ایک مقامی افسر کو اپنی جیپ میں بٹھائے اس کے گردونواح میں گھوم رہا تھا‘راستے میں ایک مفلوک الحال بوڑھا اور اس کی بیوی ایک گدھے کو ہانکتے ہوئے سڑک پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے‘دونوں کے کپڑے میلے کچیلے اور پھٹے پرانے تھے‘ دونوں کے جوتے بھی ٹوٹے پھوٹے تھے‘ انہوں نے اشارے سے ہماری جیپ کو روک کر دریافت کیا”بیت المال کس طرف ہے؟“
آزاد کشمیر میں سرکاری خزانے کو بیت المال ہی کہاجاتا تھا‘میں نے پوچھا ”بیت المال میں تمہارا کیا کام؟“بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا”میں نے اپنی بیوی کیساتھ مل کر میرپور شہر کے ملبے کو کرید کرید کر سونے اور چاندی کے زیورات کی دو بوریاں جمع کی ہیں اب انہیں اس کھوتی پر لاد کر ہم بیت المال میں جمع کرانے جارہے ہیں“ہم نے ان کا گدھا ایک پولیس کانسٹیبل کی حفاظت میں چھوڑا اور بوریوں کو جیپ میں رکھ کر دونوں کو اپنے ساتھ بٹھا لیا تاکہ انہیں بیت المال لے جائیں۔آج بھی جب وہ نحیف ونزار اور مفلوک الحال جوڑا مجھے یاد آتا ہے تو سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتا ہے کہ جیپ کے اندر میں ان دونوں کے برابر کیوں بیٹھا رہا‘مجھے تو چاہئے تھا کہ میں ان کے گرد آلود پاؤں اپنی آنکھوں اور سر پر رکھ کر بیٹھوں۔