خدمت کا جذبہ

24 اکتوبر1947ء کو آزاد کشمیر حکومت کے قیام کی خبر سنتے ہی میں فوراً چوہدری محمد علی سیکرٹری جنرل کی خدمت میں حاضر ہوااور ان سے درخواست کی کہ مجھے فوراً تراڑ خیل روانہ ہونے کی اجازت عطا فرمائی جائے تاکہ میں اس نئی حکومت کی کوئی خدمت بجا لا سکوں ، ساتھ میں نے یہ گزارش بھی کی کہ آپ میرا استعفیٰ لیکر اپنے پاس رکھ لیں، کسی بھی وقت آپ بے شک میرا استعفیٰ منظور کرکے مجھے اپنی ملازمت سے دست بردار سمجھ لیں‘ چوہدری صاحب مسکرائے اور بولے ”جذباتی نہ بنو‘ پاکستان صرف دو ڈھائی ماہ پہلے وجود میں آیا ہے یہاں پر بھی خدمت کی بہت گنجائش ہے 
میں مایوس ہو کر واپس آ گیا کام تو میں وزارت تجارت میں انڈر سیکرٹری کے طور پرکرتا رہا‘ لیکن دل بدستور آزاد کشمیر میں اٹکا رہا پھر مارچ1948ء میں اچانک چوہدری غلام عباس مقبوضہ کشمیر سے رہا ہو کر پاکستان آگئے آتے ہی وہ فوراً قائداعظم کی خدمت میں حاضری دینے کراچی آئے اور ہمارے ہاں فرو کش ہوئے اگلے روز قائداعظم نے انہیں لنچ پر مدعو فرمایا‘جس وقت ہم انہیں ایک نہایت ناقابل اعتبار اور پھٹیچر سی کارپر گورنر جنرل ہاؤس چھوڑنے جا رہے تھے تو راستے میں ان کو میں نے آزاد کشمیر کے متعلق اپنی دلی خواہش کا اظہار کیا۔
اسکے بعد مجھے کچھ معلوم نہیں کہ کیا کیا کاروائی کہاں کہاں پر ہوئی البتہ کچھ عرصہ بعد چوہدری محمد علی صاحب نے ایک روز مجھے اپنے دفتر میں بلا کر یہ مژدہ سنایا کہ تمہیں آزاد کشمیر حکومت میں جا کر کام کرنے کی اجازت ہے‘ لیکن تمہاری موجودہ تنخواہ تمہیں وزارت تجارت ہی سے ملا کرے گی‘ کیونکہ سرکاری گزٹ میں تمہارا نام اسی وزارت کے ملازمین کی فہرست میں شامل رہے گا‘چلتے چلتے چوہدری محمدعلی نے مجھے ایک اور مشورہ بھی دیا تم نوجوان اور نو آموز ہوکام نیا اور مشکل ہے‘اس لئے پھونک پھونک کر قدم رکھنا۔ اگر کبھی کسی معاملہ میں کوئی مشکل پیش آئے تو میرے ساتھ رابطہ قائم کرنے سے ہرگز نہ ہچکچانا‘ سیکرٹری جنرل کی اس خیر سگالی کو پلے باندھ کر میں نے خوشی خوشی رخت سفر باندھا او ر آزاد کشمیر کی راہ لی۔(شہاب نامہ سے اقتباس)