تانگہ اور پٹرول

امجد اسلام امجد اپنے سفر نامے میں ٹریفک سے جڑے مسائل کے تناظر میں دلچسپ انداز کیساتھ بتاتے ہیں کہ کس طرح وہ ائیر پورٹ پر ہی تھے اور جہاز پرواز کر گیا‘ امجد اسلام امجد لکھتے ہیں روانگی صبح نو بجے تھی‘ اصولاً ہمیں آٹھ بجے ائیر پورٹ پر ہوناچاہئے تھا مگر ہمارے میزبان ہمیں آٹھ بجے مزید ناشتے کے لئے مجبور کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ اس وقت ٹریفک کم ہوتی ہے اور ہم زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ میں ہوائی اڈے کے اندر ہونگے‘یہ پندرہ منٹ پھیل کر تین گنا ہوگئے پونے نو بجے ہم کاؤنٹر پر پہنچے جو اس وقت بھائیں بھائیں کررہا تھا مگر ہماری توقع کے برخلاف کاؤنٹر والی اجنبی چہارشیزہ کے برف آلود چہرے پر ہمارے اس قدر دیر سے آنے کا کوئی تکدردکھائی نہ دیا‘ چار مسافر چھ بکسے اور چار ہینڈ بیگ چودہ کے چودہ نگ کسٹم کے کاؤنٹر پر جس سراسیمگی اور حواس باختگی کے عالم میں پہنچے اس کا فطری رد عمل وہی ہوا جو ہونا چاہئے تھا نو بجنے میں پانچ منٹ پر اس نے جان چھوڑی ہم نے اپنے گیٹ نمبر کا اتا پتا معلوم کرنا چاہا اس نے بڑی شستہ انگریزی میں بتایا کہ امیگریشن کی منزل سے گزر لو باقی راستہ وہ خود بتا دیں گے ”امیگریشن؟“ میں نے حیرت سے کہا ”امیگریشن تو ہماراامریکہ میں ہوگا!“ کسٹم والے نے بڑے پروفیسر انہ انداز میں بتایا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا کے انتہائی قریبی اور دوستانہ تعلقات کے پیش نظر امریکہ جانے والوں کی امیگریشن کی Formailityیہیں پوری کرلی جاتی ہے‘ امیگریشن والے کی طرف بھاگے اس نے متعلقہ فارم اس طرح ہماری طرف بڑھائے جیسے زبان حال سے کہہ رہا ہو۔ حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی دو منٹ سے بھی کم عرصے میں ہم نے فارم بھر لئے مگر اس سے قبل کہ انہیں امیگریشن والے کے حضور پیش کرتے اور جہاز کی طرف ”وڑکی“ لگاتے (کیونکہ میری گھڑی کے مطابق فلائٹ کے اور ہمارے درمیان ابھی ایک منٹ باقی تھا ایک لمبے چوڑے گورے نے جو وردی میں ملبوس تھا اور جس کے ہاتھ میں وا کی ٹاکی تھا بڑی خوش دلی سے مسکراتے ہوئے ہمیں اطلاع دی کہ ہمارا جہاز پرواز کر چکا ہے! ایک اور مقام پرامجد اسلام امجد اپنے مخصوص انداز میں کینیڈا کے خوبصورت مناظر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اب پتا نہیں یہ موسم کا اثر تھا یا ہوائی جہاز بھی ہماری طرح باذوق تھا کیونکہ پہلی بار فلائٹ منزل مقصود پر پندرہ منٹ کی تاخیر سے پہنچی کینیڈاکی وسعت کا اندازہ اس سے کیجئے کہ چار گھنٹے کی کل فلائٹ میں دو گھنٹے Time Differenceتھا یعنی ہماری گھڑیوں پر تین بجے تھے اور کیلگری میں پانچ بج رہے تھے ائر پورٹ پر اقبال حیدر اور حسن ظہیر کیساتھ ساتھ حد نظر تک پھیلی ہوئی برف ہماری منتظر تھی‘میں نے زندگی میں اتنی برف پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی‘کیلگری کا علاقہ تیل کی پیداوار کیلئے بے حد مشہور ہے وہاں کی معیشت کا دارومدار بھی تیل کی مصنوعات اور ریفائنریوں پر ہے‘ یہ برف میں ’کالا سونا‘ کہاں سے آ گیا؟ ایئر پورٹ سے شہر جاتے وقت بے آبادسڑک کے دونوں طرف حد نظر تک برف ہی برف تھی ہمارے میزبان حسن ظہیر‘جو خود بھی آئل کمپنی میں انجینئر تھے ہمیں اس علاقے کے بارے میں بتا رہے تھے مگر ذہن ابھی تک برف میں تیل کی پراسرار گتھی میں الجھا ہوا تھا میں نے اپنی کم علمی بلکہ لاعلمی چھپانے کیلئے خوب چکر دیکر باتوں باتوں میں حسن ظہیر سے یہی سوال کیا کہ تو اس مرد شریف نے زمین کی جیالوجیکل حالتوں کے بارے میں ایک ایسا لیکچر شروع کردیا کہ میں توخیر سائنس میں تھا ہی کورا‘عالی بھی جو عام حالات میں کسی موضوع میں بند نہیں ہوتے’ہاں ہوں‘ سے آگے نہ بڑھ سکے حسن ظہیر کو شاید اس امر کا احساس ہوگیا تھا کہ اسکی گفتگو ضرورت سے کچھ زیادہ ٹیکنیکل ہورہی ہے چنانچہ اسنے لیکچر ادھورا چھوڑ کر ہم سے ہمارے بارے میں باتیں شروع کردیں بات دوبارہ پٹرول تک پہنچ گئی‘ اب مجھ سے نہیں رہا گیا میں نے فوراً صوفی تبسم مرحوم سے متعلق ایک مشہور واقعہ داغ دیا کہ وہ تانگے میں سوار ریڈیوسٹیشن جارہے تھے واقعی لیٹ تھے یا انہیں اسکا وہم ہوگیا تھا بہر حال سنت نگر سے لکشمی چوک تک پہنچتے پہنچتے انہوں نے کوئی بیس مرتبہ تانگے والے کو تیز چلانے کیلئے کہا‘ تانگے والا بھی یکے اززندہ دلان لاہور تھاتانگے کو سیدھا ایبٹ روڈ کے چوک میں واقع پٹرول پمپ پر لے گیا پٹرول پمپ والے سے طنزاً کہااس میں دو گیلن پٹرول ڈال دو‘ اس بزرگ کو بہت جلدی ہے۔